جمعرات، 19 فروری، 2015

کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی

کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی

محمد آصف ریاض
مئی 2014 کے لوک سبھا انتخابا ت کے لئے بی جے پی کے لیڈراورگجرات کے وزیراعلی نریندرداس مودی نے بہت ہی جارحانہ مہم شروع کی ۔ مسٹرمودی کوجب بی جے پی کی طرف سے وزیراعظم کا امیدواربنا یا گیا توانھوں نے ملک بھرمیں تقرباً پانچ سو ریلیاں کیں اوراپنی آتشیں تقریر کی بدولت میدان مارنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی پارٹی پوری اکثریت کے ساتھ جیت گئی اورمسٹرمودی 26 مئی 2014 کوملک کے 15 ویں وزیراعظم بن گئے۔
مودی لہرکا ملک بھرمیں ایسا رعب طاری ہوا کہ اسی رعب کی بدولت مودی نے اپنی پارٹی کو مہارشٹر، ہریانہ، اور جھارکھنڈ کے اسمبلی انتخابات میں جیت دلا دی ۔ مودی لہر نے سیاسی سمندر میں وہ طوفان اٹھا یا کہ بشمول کانگریس دوسری تقریباً تمام پارٹیاں اس طوفان میں ڈوبتی ہوئی نظر   آئیں۔ ہرسیاسی کھلاڑی مودی لہرکے سامنے بے بس نظرآرہا تھا۔ اسی اثنا میں دہلی سے ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس کا نام اروند کیجریوال تھا۔ لوگ اسے'مفلرمین' بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ سردیوں میں اپنے گلے میں معمولی قسم کا مفلر لپیٹے رہتا تھا۔
 اروند کیجریوال عام آدمی پارٹی کے کنوینراوردہلی کے وزیراعلیٰ ہیں۔ وہ بہت زیادہ محنتی لیڈرمانے جاتے ہیں۔ انھوں نے انا ہزارے تحریک سے سیاسی زندگی کا آغازکیا۔ 2012 میں انھوں نےعام آدمی پارٹی بنائی اور2013 کے انتخاب میں حصہ لیا۔ اس انتخاب میں انھوں نے پندرہ سالوں سے دہلی پر راج کرنے والی خاتون وزیراعلیٰ شیلا دکشت کو بری طرح مات دی ۔ انتخابات کے بعد 28 سیٹوں کے ساتھ وہ بی جے پی کے بعد دوسری سب سے بڑی پارٹی بن کرابھرے۔ کانگریس کی مدد سے انھوں نے 23 دسمبر1913 کو دہلی کے وزیراعلیٰ کا حلف اٹھا۔ لیکن چونکہ ان کی پارٹی کواکثریت حاصل نہیں تھی اس لئے بہت جلد یعنی 14 فروری 2014 کو اپنےعہدے سے استعفیٰ د ے دیا۔
وزیراعلیٰ کاعہدہ چھوڑ کرکجریوال لوک سبھا کےانتخاب میں مودی کو ٹکر دینے کے لئے بنارس چلے گئے۔ لیکن یہاں انھیں مودی لہرکے ہاتھوں سخت قسم کی ہزیمت اٹھانی پڑی۔ مودی لہرمیں ان کی پارٹی بھی ملک بھرمیں بری طرح ہارگئی البتہ کسی طرح پنجاب میں وہ 4 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
2015 میں دہلی میں صدرراج کا خاتمہ ہوا اورکیجریوال ایک بار پھرمیدان میں اترآئے۔ اس بار کیجریوال کا مقابلہ بنارس کے مودی سےنہیں تھا بلکہ اس مودی سے تھا جواپنی لہرکی بدولت ملک کا وزیراعظم بن چکا تھا اوراسی لہرکی بدولت وہ کئی ریاستی انتخابات بھی جیت چکا تھا۔ دہلی کے ریاستی انتخابات میں بھی اورریاستوں کی طرح 'چلوچلیں مودی کے ساتھ' کا نعرہ دے کر بی جے پی نےالیکشن کو کیجریوال بنام مودی کردیا۔ حالانکہ کیجریوال اس سے بچنا چاہ رہے تھے۔ لیکن بی جے پی اس کے لئے تیارنہ تھی۔ وہ کجریوال کومودی کے طوفان میں ڈوبا کرماردینا چاہ رہی تھی۔
مسٹرمودی نے دہلی میں کیجریوال کے خلاف یکے بعد دیگرے کئی ریلیاں کیں ۔ وہ اپنی آتشیں تقریر میں اس قدر آگے نکل گئے کہ انھوں نے کجریوال کو بھگوڑا اور نکسلی تک کہہ ڈالا۔ ہرطرف مودی لہرکا ہوا کھڑا کیا گیا لیکن کجریوال ہارماننے والے نہ تھے۔ انھوں نے ہار سے جیت کو نچوڑنے کی قسم کھا رکھی تھی ۔ انھوں نےپارٹی کو ازسرنو منظم کیا اور مودی لہر کے سامنے ڈٹ گئے ۔ انھوں نے سینکڑوں ریلیاں کیں اورگھرگھرجاکرلوگوں سے رابطہ قائم کیا۔ نتیجہ کارانتخاب جیت گئے۔
10 فروری 2015 کی صبح جب اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان ہوا توملک کا ہرشخص سکتے میں تھا۔ کجریوال نے مودی کو کہیں کا نہیں چھوڑا تھا اورپوری بی جے پی کو انھوں نے ڈوبا کر برباد کردیا تھا۔ مودی لہرکا خاتمہ اس اندازمیں ہوا کہ ان کی پارٹی 70 میں محض 3 سیٹ ہی لا سکی۔ حالت یہ ہوگئی کہ بی جے پی سے وزیراعلیٰ کی امیدوارکرن بیدی بھی الیکشن ہارگئیں جبکہ کانگریس اپنا کھاتہ بھی نہ کھول سکی ۔
کیجریوال کی اس حیران کن فتح پرہر طرف سے انھیں مبارک باد دی جانے لگی۔ امیتابھ بچن نے بھی انھیں مبارکباد دی۔ انھوں نے کیجریوال کومبارکباد دیتے ہوئے اپنے والد ہری ونش رائے بچن کی یہ نظم ٹیوٹ کی:
لہروں سے ڈر کر نوکا پار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی
ننھی چیٹی جب دانا لے کر چلتی ہے
چڑھتی ہے دیواروں پرسوبارپھسلتی ہے
من کا وشواش رگوں میں ساہس بھرتا ہے
چڑھ کرگرنا گرکرچڑھنا نہ اکھڑتا ہے
آخراس کی محنت بیکارنہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی
اسفلتا ایک چنوتی ہے اسے سیوکارکرو
کیا کمی رہ گئی دیکھو،اورسدھارکرو
جب تک نہ سفل ہونیند چین کوتیا گوتم
سنگھرش کا میدان چھوڑ کرمت بھاگوتم
کچھ کئے بنا ہی جئے جئے کار نہیں ہوتی
کوشش کرنے والوں کی کبھی ہارنہیں ہوتی

ہری ونش رائے بچن

بدھ، 18 فروری، 2015

پاکستانیوں کی نجات

پاکستانیوں کی نجات

محمد آصف ریاض
پاکستان میں تقریباً ہرروزقتل وغارت گری کے بازارگرم  ہوتے ہیں ۔ یہاں تقریباً ہرروزکوئی نہ کوئی خونی واقعہ ضرور پیش آتا ہے۔ کبھی مسجد پرحملہ ہوتا ہے توکبھی چرچ جلائے جاتے ہیں۔ کبھی اسکولوں کو نشانہ بنا یا جا تا ہے توکبھی خانقاہوں میں خون کی ہولی کھیلی جا تی ہے۔ صورت حال یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب پاکستانی اسےاپنا نوشتہ تقدیرسمجھنے لگے ہیں۔ انھیں یہ لگتا ہے کہ اب وہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ They cannot do anything about this))
اسی قسم کا ایک خونی واقعہ وہ ہے جسے پشاورکا قتل عام کہا جا تا ہے۔ یہاں 16 دسمبر2014 کو ایک اسکول میں 9 دہشت گرد گھس آئے اورانھوں نے ننھے ننھے بچوں پرگولیاں چلانی شروع کردیں یہاں تک کہ 150 بچوں کو گولیوں سے بھون ڈالا۔ آج 13 فروری 2015 کوجبکہ میں اپنا یہ مضمون لکھ رہا ہوں ایک اورحملہ پشاورکی ایک مسجد میں ہوا ہے جہاں درجنوں لوگ مارے گئے ہیں۔
ایک عرصہ سے میں یہ سوچتارہا ہوں کہ آخر پاکستان کی یہ حالت کیوں ہوئی ؟ آخریہاں کوئی گھرکوئی عبادت خانہ ،کوئی تعلیم گاہ شدت پسندوں کے ہاتھوں سے محفوظ کیوں نہیں ہے؟  کیوں پاکستانیوں کو ہر روز ایک نئی چیخ و پکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟ اس کا جواب ہمیں قرآن کی اس آیت میں ملا:
" اوریقیناً یونس بھی رسولوں میں سے تھا۔ یاد کرو جب کہ وہ ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ نکلا ۔ پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اورمات کھائی۔ آخرکارمچھلی نےاسے نگل لیا اوروہ ملامت زدہ تھا۔ اب اگروہ تسبیح (توبہ) کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو وہ لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔  37: 139- 144))
حضرت یونس کا زمانہ آٹھویں صدی قبل مسیح کا ہے۔ وہ عراق کے شہرنینویٰ میں رسول بنا کربھیجے گئے تھے۔ انھیں تبلیغ دین کا کام دیا گیا تھا ۔ ایک مدت تک تبلیغ کے بعد آپ نے اندازہ کیا کہ قوم ایمان لانے والی نہیں ہے۔ آپ دلبرداشتہ ہوگئے اورشہر چھوڑ دیا۔ آگے جانے کے لئے آپ غالباً دجلہ کے کنارے ایک کشتی میں سوار ہوئے۔ کشتی زیادہ بھری ہوئی تھی۔ درمیان میں پہنچ کر ڈوبنے لگی۔ چنانچہ کشتی کو ہلکا کرنے کے لئے قرعہ ڈالا گیا کہ جس کا نام نکلے اسے دریا میں ڈال دیا جائے۔ قرعہ حضرت یونس کے نام نکلا اورکشتی والوں نے آپ  کو دریا میں پھینک دیا یہاں ایک مچھلی نے انھیں نگل لیا۔ یونس نے اپنی قوم کو قبل از وقت چھوڑ دیا تھا ۔ انھوں نے بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا چنانچہ آپ کو مچھلی کے پیٹ میں بند کردیا گیا اوراس وقت تک آپ کو اس مصیبت سے نجات نہیں ملی جب تک کہ آپ نے توبہ نہیں کیا۔
اب پاکستان کا حال دیکھئے۔ پاکستان14 اگست 1947 کو وجود میں آیا۔ پاکستان کا وجود خدائی منصوبہ کے خلاف تھا ۔ کیونکہ اس کے قیام پرامت میں اتفاق رائے نہیں تھا۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے قیام کے خلاف تھی جو آج تک ہندوستان میں ہے اورخدا کے فضل سے یہاں کےمسجدومحراب کو روشن کئے ہوئے ہے۔
معروف مبصراورسیاسی تجزیہ کارکلدیپ نیئرنے اپنی سوانح Byond the lines   میں لکھا ہے کہ "ملک کی تقسیم سے سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کو ہوا۔ کیونکہ تقسیم کے دوسرے ہے دن مسلمان ہندوستان کےاندرایک چھوٹی سی اقلیت بن کر رہ گئے حالانکہ اب تک وہ ایک بڑی طاقت تھے۔" اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لئے پڑھئے مولانا ابوالکلام آزاد کی سوانح" آزادی ہند " India wins freedom انگریزی ایڈیشن۔
ملک کی تقسیم سے مسلمانوں کا سب سے پہلا اورامیجیٹ نقصان یہ ہوا کہ کئی مسلم اکثریتی صوبے اچانک دو لخت ہوکر رہ گئے۔ مثلا پنجاب جوکہ ایک مسلم صوبہ تھا پنجاب اورمغربی پنجاب کے درمیان منقسم ہوگیا۔ اسی طرح بنگال جومسلم صوبہ تھا مشرقی اورمغربی حصوں میں بٹ گیا۔ اسی طرح کشمیر کو دو حصوں میں بانٹ دیا گیا اورآسام کے بھی دو حصے کئے گئے۔ دوسرا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بہت سے مساجدو مدارس اچانک ویران ہوگئے۔ بہت سی مسلم بستیاں جہاں کی فضائیں اذان کی صدائوں سے ہمہ وقت گونجتی رہتی تھیں اچانک اجڑ گئیں۔ مثلاً پنجاب، ہریانہ راجستھان، بہار، بنگال اورآسام کی مسلم بستیاں وغیرہ ۔ خدا کا فضل ہے کہ بہت سی تباہ حال مسلم بستیوں کو مسلمانان ہند نے ایک بار پھرسے آباد کردیا ہے جیسے ہریانہ ، بنگال، آسام، اور پنجاب کی مسلم بستیاں وغیرہ۔ اس سلسلے کی ایک رپورٹ وہ ہے جسے دی نیشنل ورلڈ نامی ویب سائٹ نے ان الفاظ میں شائع کیا ہے
 " Maolana Ludhianvi said. "In fact, because of excellent co-operation by the Sikhs, in the past few years in Punjab we have been able to resurrect nearly 20 mosques which had been lying in virtual ruins or had been turned to gurdwaras or had been occupied by illegal settlers for decades."

ملک کی آزادی کا وقت جوں جوں قریب آ تا گیا ملک میں مسلم لیگیوں نے بڑا طوفان مچایا۔ انھوں نے خوبصورت ہندوستان کو چھوڑ کر جہاں مسلمان ہزارسال سے آباد چلے آرہے تھے اورجس کےبارے میں حدیث میں پیشن گویاں بھی موجود ہیں، ایک نیا جنگل بسانا چاہا اورلوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے اس جنگل کا نام "اسلام آباد" رکھ دیا ۔ انھوں نے " بن کے رہے گا پاکستان، بٹ کے رہے گا ہندوستان" جیسے بھڑکائو نعروں سے پورے ماحول کو خراب کردیا ۔ 1946  میں انگریزوں کی نگرانی میں قائم ہونے والی عبوری حکومت سے مسلم لیگی اس قدر دلبرداشتہ ہوئے کہ انھوں نے ملک کو چھوڑ کر بھاگ جانے کا فیصلہ کیا اورآخر کار 1947 میں یہاں سے ٹرینوں بسوں اور بیل گاڑیوں میں بھر کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
انھوں نے حضرت یونس کی طرح بے صبری کا مظاہرہ کیا اور دعوت کے مواقع پرسیاست کے مواقع کو ترجیح دی۔ انھوں نے صرف یہ دیکھا کہ اب ہندوستان میں ان کے لئے حکومت اورسیاست کے مواقع نہیں ہیں ۔ انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ دعوت کا میدان اب بھی کھلا ہوا ہے۔ اگر وہ دعوتی نگاہ سے دیکھتے تو انھیں ہندوستان میں بے پناہ مواقع نظر آجاتے۔ بہت جلد انھیں اس  با ت کا احساس ہوجا تا کہ دعوت کے راستے وہ سب کچھ پا سکتے جنھیں  وہ سیاست کے راستے سے پانا چاہتے ہیں۔ شیطان نے انھیں ایک ہی موقع دکھا یا وہ تھا سیاست کا موقع۔ شیطان نے انھیں بتایا کہ اب تمہارے لئے یہاں کوئی  موقع نہیں ہے اس لئے یہاں سے نکل جائو۔ انھوں نے شیطان کے بہکاوے پرہجرت کی اور دعوت کا میدان چھوڑ دیا۔ وہ بیل گاڑیوں پر سوار ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے تو خدا نے انھیں حضرت یونس کی طرح مصیبت کے پیٹ میں بند کردیا اور تب سے آج تک وہ اس مصیبت کے پیٹ میں کراہ رہے ہیں لیکن نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ وہ اس مصیبت سے اس وقت تک نجات حاصل نہیں کر سکتے جب تک کہ توبہ نہ کریں اور اپنے اوپر دعوت کا دروازہ نہ کھولیں۔
 " اوریقیناً یونس بھی رسولوں میں سے تھا۔ یاد کرو جب کہ وہ ایک بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگ نکلا ۔ پھر قرعہ اندازی میں شریک ہوا اورمات کھائی۔ آخرکارمچھلی نےاسے نگل لیا اوروہ ملامت زدہ تھا۔ اب اگروہ تسبیح (توبہ) کرنے والوں میں سے نہ ہوتا تو وہ لوگوں کے اٹھائے جانے کے دن (قیامت) تک اسی مچھلی کے پیٹ میں رہتا۔"  37: 139- 144))

جمعہ، 13 فروری، 2015

عروج امت اور شکور محمد

عروج امت اور شکور محمد

محمد آصف ریاض
شکورمحمد راجستھان کے شہرجودھپورکے رہنے والے ہیں۔ وہ 62 سال کے ہوچکے ہیں ۔ وہ ایک د ھا ڑی دارمزدورہیں اور پتھر تراشنے کا کام کرتے ہیں ۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ وہ اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی کرچکے ہیں ۔ اب بڑھاپے میں وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ایک بیٹی کے گھرمیں رہتےہیں۔
 1984 میں انھوں نے چارہزار روپے میں 6 پلاٹ خریدے تھے۔ ان میں ہر ایک پلاٹ 150 ورگ گزکا ہے۔ اس وقت ہر ایک پلاٹ کی قیمت تقریباً 25 لاکھ روپیہ ہے۔
شکورمحمد نے دو پلاٹ اپنی دونوں بیٹیوں کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ اپنی والدہ کے نام سے ایک اسپتال بنانے کے لئے وہ ایک پلاٹ بہت پہلے ہی وقف کر چکے ہیں ۔ اس پلاٹ پرجودھپورکے سابق میئر رامیشور نے 40 لاکھ روپے کی لاگت سے ایک ہیلتھ سینٹرقائم کیا ہے۔
اب شکورمحمد نے زمین کا ایک ٹکڑا مدرسہ کے لئے وقف کیا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ وہاں کوئی مدرسہ بن جائے تاکہ قوم کے بچے دین کی تعلیم حاصل کرسکیں۔ اسی کے ساتھ ہی انھوں اپنا ایک پلاٹ مسجد کی تعمیر کے لئے بھی وقف کیا ہے اور وہ وہاں مسجد بنانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو نماز کی ادائیگی کے لئے دور دراز کا سفر نہ کرنا پڑے۔
شکورمحمد پتھرتراشنے کا کام کرتے ہیں اور بہت ہی  سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ اتنی سادگی کے ساتھ زندگی کیوں بسر کرتے ہیں؟ تو ان کا جواب تھا کہ پیسہ بچا کرقوم کو ترقی سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں۔
شکور محمد کا واقعہ بتا رہا ہے کہ قوم اگرایک عالیشان عمارت ہے توافراد اس کی اینٹ ۔ اگراینٹ مضبوط ہے توعمارت بھی مضبوط ہوگی اوراگر اینٹ کمزورہےتو عمارت بھی کمزور ہوگی۔ اگر آپ کو کسی قوم کی عمارت بلند نظر آتی ہے تو سمجھ لیجئے کہ اس میں ضرور کسی شکور محمد کی اینٹ لگی ہے۔
جان لیجئے کہ عروج امت کا کام سیاسی ہنگامہ آرائی کا کام نہیں ہے یہ فرد فرد کو شکور محمد بنانے کا کام ہے۔ یہ کام بیج کو درخت بنانے کا کام ہے۔ یہ بہت ہی صبر آزما کام ہے۔ اس کام کے لئے آدمی کو 62 سال انتظار کرنا پڑتا ہے.

جمعرات، 12 فروری، 2015

"The future belongs to Muslims"

مستقبل مسلمانوں کا ہے

محمد آصف ریاض
" مستقبل مسلمانوں کا ہے" ( ( The future belongs to Muslimsیہ پیشن گوئی کسی مولوی کی نہیں ہے اورنہ ہی کسی شیخ الاسلام نےاس کا فتویٰ جاری کیا ہے۔ یہ بات روس کے ایک پادری دیمتری سمیرنو Dmitri Smirnov)) نے کہی ہے؟
اب جانتے ہیں کہ روس میں ایسا کیا ہواہے جس نے پادری کو اس پیشن گوئی پرمجبورکرکیا؟ کیا روس میں ہرطرف مسجدیں آباد ہوچکی ہیں؟ کیا ہرطرف دعوہ ورک جاری ہوچکا ہے؟ کیا علما نے اپنی ذمہ داریاں پوری کردی ہیں؟ کیا ہرگھرمیں خدا کا کلمہ داخل ہوچکا ہے؟ نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے.
وکی پیڈیا کی رپورٹ بتاتی ہے کہ روس کی راجدھانی ماسکو میں ڈیڑھ کروڑمسلم آباد ہیں جو پوری آبادی کا 14 فیصد ہیں لیکن یہاں مسجد کی تعداد صرف 4 ہے۔
Muslims constitute around 1.5 million, that is 14% of the population.[46] There are four mosques in the city
ماسکو میں ابھی کئی مسجد کی ضرورت ہے لیکن ماسکو کا میئر کسی نئی مسجد کی تعمیرکی اجازت نہیں دیتا۔ اس کا ماننا ہے کہ جہاں مسجد ہوتی ہے وہاں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ تو پھرپادری کی زبان سے یہ اندیشہ کیوں ظاہر ہوا کہ "روس میں مستقبل اسلام کا ہے"۔ یہ انقلاب کون برپا کر رہا ہے؟
یہ انقلاب ماسکوکی سڑک پرچلنے والے چند مسلم ٹیکسی ڈرائیوربرپا کر رہے ہیں ۔ یہ مسلم ڈرائیور روسی عوام کواسلامی شرافت اوررواداری سےعملاً متعارف کرا رہے ہیں۔ وہ جب بھی کسی مسیحی بڑھیا کو چرچ کی طرف لے جاتے ہیں تووہ ان سے معاوضہ  نہیں لیتے بلکہ خدمت خلق کے طور پرانھیں چرچ تک پہنچا دیتے ہیں۔ اس کے برعکس مسیحی ڈرائیوروں کا حال یہ ہے کہ وہ ہرموقع کو پیسہ کمانے کا موقع سمجھتے ہیں۔ یہی بات ایک بڑھیا نے بشپ سے کہہ دی جسے سن کرمسیحی پادری حیران رہ گیا اوراس کے منھ سے بے ساختہ یہ الفاظ  نکل پڑے:
"کوئی مسلمان بوڑھی عورت سے پیسہ کمانے میں دلچسپی نہیں رکھتا بلکہ وہ بوڑھی عورتوں کا مددگار ہوتا ہے ۔ وہ انھیں اپنے ساتھ بازارلے جاتا ہے اوراگران کے پاس کوئی سامان ہے تو وہ اسے اٹھاتا بھی ہے اور بعض اوقات وہ ان کا بل بھی چکا دیتا ہے اوراگر ان کے پاس سامان ہو تو وہ انھیں ایلی ویٹریا فلورتک پہنچا دیتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ روس میں مستقبل مسلمانوں کا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ مستقبل ان کا ہے ، وہ لوگ اس زمین کے وارث ہوں گے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ آج مسیحیوں کوان چیزوں کی ضرورت نہیں ۔"
   A Muslim is not interested in gaining benefit from the old woman. Rather, the Muslim offers to take her around, take her to the landrette, pay her bills, take her to the market, carry her bags up to her floor or to her elevator (if she has one),' he said.Smirnov went on to say: 'For this reason, the future will belong to the Muslims. The future is theirs. They will plough this land, because today's Christians are not in need of these things.'
روسی پادری کی بات سن کرمجھے منگولوں کی یاد آگئی ۔ تیرہویں صدی میں جب کہ منگولوں کے پے درپے حملے کی وجہ سے اسلام کا ستارہ ڈوب رہا تھا۔ خلیفہ قتل کردئے گئے تھے اوربغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی تھی توایسے نازک وقت میں عام مسلمانوں نے اپنا رول ادا کیا تھا۔ اس وقت کے سادہ مسلمانوں نےاسلامی رواداری اورسلوک کے ذریعہ منگولوں کا دل جیت لیاتھا۔ مسلمانوں کی سادگی اور شرافت نفس نے منگولوں کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے اپنا مذہب بدل ڈالا اور سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ جو قوم طاقت کے میدان میں مسلمانوں سے جیت چکی تھی شرافت کے میدان میں مسلمانوں سے اچانک ہار گئی۔ اگریہی واقعہ چند ڈرائیوروں کے ہاتھوں روس میں انجام پائے اوران کے ہاتھوں یہاں بھی عروج امت کا واقعہ دہرایا جائے توکوئی تعجب کی بات نہ ہوگی۔ اس قسم کا واقعہ ماضی میں انڈونیشیا میں ہوچکا ہے۔ انڈو نیشیا کو تاجروں نے مسلمان بنا یا تھا۔
بعید نہیں کہ مسیحی پادری کی وہ بات ثابت ہوکہ روس میں مستقبل اسلام کا ہے، اوریہاں عروج امت کا واقعہ روس کے سادہ مسلمانوں جیسے ڈرائیور، اسٹوڈنٹس، ورکنگ ویمن، نوجوان لڑکوں کے ہاتھوں انجام پائے۔
قرآن میں اس بات کی بشارت بہت پہلےسے موجود ہے ۔ قرآن میں ہے: كم من فئة قليلة غلبت فئة كثيرة باذن الله والله مع الصابرين۔
بہت سی قلیل جماعتیں کثیرجماعتوں پرغالب آجاتی ہیں، اوراللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ قرآن کی اس آیت کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ وہ صرف تعداد میں کم ہوں گے بلکہ وہ وسائل اوربعض مرتبہ علم میں بھی کم ہوں گے لیکن اپنی شرافت اورنیک نامی کی وجہ سے دوسروں پرغالب آجائیں گے۔ شاید روس کے مسلم ڈرائیور قرآن کی اسی پیشن گوئی کو ثابت کریں !

پیر، 9 فروری، 2015

وزیر اعظم مودی اور امن کے دس سال

وزیر اعظم مودی اور امن کے دس سال

محمد آصف ریاض
پندرہ اگست کو قوم کے نام اپنے پہلےخطاب میں وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ سے یہ اعلان کیا تھا کہ " ہمیں تشدد سے پاک دس سال دیجئے۔ لڑائی جھگڑا اورتشدد سے پاک دس سال ملک کی تقدیربدل دینے کے لئے کافی ہے"۔ ٹائمز آف انڈیا نے اس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا تھا:
PM Narendra Modi pitches for 10-year moratorium on violence
چونکہ وزیراعظم گجرات فساد کولے کرہمیشہ چرچے میں رہے ہیں، شاید اسی لئے مسلمانوں کےایک طبقہ نےان کے اس اعلان کو شک کی نگاہ سے دیکھا ۔ کچھ لوگوں نے یہ سمجھا کہ آرایس ایس کواپنی پالیسی کے نفاذ کے لئے ابھی وقت درکارہےاورشاید وزیراعظم اسی لئے وقت مانگ رہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں یہ ایک مفروضہ ہے۔ اپنی اصل کے اعتبارسے یہ تعبیر کی ایک غلطی ہے۔ مسلمانوں نے ایک صحیح پیغام کو  غلط معنیٰ میں لے لیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کوئی حکمراں اپنی ہی رعایا کی تباہی کا سامان کیوں تیار کرے گا اوراگر وہ اپنی ہی رعایا کوتباہ کرنے میں کامیاب ہوگیا تو وہ حکومت کس پر کرے گا؟
دوسری بات یہ کہ اگر یہ دس سال کا موقع آرایس ایس کی تیاری کے لئے ہے تواس کی قیمت کے طور پرہندوئوں کو اپنے لاکھوں بچوں کو تخریب کاری پرآمادہ کرنا ہوگا ؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان اپنے بچوں کو تخریب کاری سکھاتے ہیں اور اگروہ اپنے بچوں کو تخریب کاری نہیں سکھاتے تو ہندو اپنے بچوں کو تخریب کارکیوں بنائیں گے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو بیوقوفی خود مسلمان نہیں کرتے وہ ملک کے ہندو کیوں کرنے لگے؟
تیسری بات یہ ہےکہ اگریہ دس سال آرایس ایس اوردوسرے ہندو انتہا پسندوں کی تخریب کاری کی تیاری کے لئے ہے تو پھراس کی کیا گارنٹی ہے کہ دس سال تک اوراس کے بعد بھی وقت کا سرا ان ہی کے ہاتھوں میں رہے؟
تاریخ کا سبق بتاتا ہے کہ آدمی کواس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ کسی چیزکا آغاز وہ اپنی امنگوں کے مطابق کرے لیکن اس کا انجام بھی اس کی امنگوں کے مطابق ہو اس کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی ؟
چند مثالیں
عیسائیوں نے بارہویں صدی کے آغاز میں مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ کا آغاز کردیا تھا۔ یہ آغاز ان کے ہاتھ میں تھا لیکن اس کی قیمت انھیں یہ چکانی پڑی کہ یوروپ کا بڑا حصہ بشمول استنبول مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلا گیا۔ بارہویں صدی کے خوبصورت آغاز کا انجام پندرہویں صدی میں بہت زیادہ افسوسناک تھا۔
روس 1979 میں افغانستان میں گھس گیا ۔ یہ اس کے اختیار میں تھا لیکن کیا انجام بھی اس کے اختیار میں تھا؟ سب جانتے ہیں کہ روس افغانستان سے اس حال میں نکلا کہ بہت جلد وہ 13 ٹکڑوں میں بکھر گیا تھا ۔ اسی طرح سری لنکا کے صدر راج پکشے نومبر  2005  میں تملوں کو کچل کر حکومت میں آئے اور 9 جنوری  2015 کے انتخاب میں اپنے حریف میتھری پا لا سری سینا Maithripala Sirisena کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا گئے۔
 کیا راج پکشے کا مذہبی جنون انھیں بچا سکا ؟ نہیں! تو پھرمودی جی اسی طرح کے جنون میں کیوں مبتلا ہوں گے؟ جو عمل بڑے بڑوں کو پچیچھے دھکیل رہا ہو مودی جی اسی عمل کو دوہرا کر پچھلی سیٹ پر کیوں بیٹھنا چاہیں گے؟۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو حکمراں امن کے ساتھ 100 سال تک حکومت کر سکتا ہے تو وہ بد امنی پھیلا کر اپنی مدت حکمرانی کوگھٹا کردس سال کیوں کرے گا؟
اصل بات
اصل بات یہ ہے کہ دس سالہ امن کے ذریعہ وزیراعظم لوگوں کو امن کا مزا چکھانا چاہتے ہیں۔ انھیں معلوم ہے کہ جب لوگوں کو امن کا مزہ مل جائے گا تو وہ بد امنی پر کبھی نہیں اتر سکتے۔ شاید وہ لوگوں کو امن کا فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو اس میں مزہ ملنے لگے۔ وہ لوگوں کے اندر امن کی عادت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور اسی لئے امن کے دس سال مانگ رہے ہیں؟
میں نہیں سمجھتا کہ اس کے پیچھے ان کا کوئی اورمنصوبہ ہے۔ اوراگرہے بھی تب بھی مسلمانوں کو ان کے اس اعلان کا استقبال کرنا چاہئے کیوں کہ قرآن میں بتا یا گیا ہے کہ جو آدمی چال چلتا ہے اس کا وبال اسی کے سر پر پڑتا ہے۔     

Learning from the Fish

مچھلی کا سبق

محمد آصف ریاض
مچھلی پانی میں رہنے والی مخلوق ہے۔ یہ بہت ہی متحرک مخلوق ہے۔ اس کی زندگی پانی میں ہے۔ پانی سے باہراس کے لئے کوئی زندگی نہیں۔ مچھلی Dissolved Oxygen آکسیجن لیتی ہے اوریہ آکسیجن اسے پانی میں ہی مل سکتا ہے۔ اسی لئے بغیر پانی کے مچھلی کا تصور تقریباً نا ممکن ہے۔ اگرآپ مچھلی کو پانی سے باہرنکال دیں توآکسیجن کی عدم موجودگی میں وہ اسی طرح ٹرپ تڑپ کر مرجائے گی جس طرح کوئی دوسری مخلوق آکسیجن کی عدم موجودگی میں تڑپ تڑپ کر دم توڑ دیتی ہے۔
مچھلی انسانی صحت کے لئے بہت ہی مفید شئے ہے۔ یہ انسان کو بڑھاپے اوراندھے پن سے بچاتی ہے۔ امریکہ میں ایک سروے سے پتہ چلا ہے جن لوگوں نے ہفتے میں دو مرتبہ مچھلیاں کھائیں ان میں اندھے پن کا خطرہ 36 فیصد تک کم ہوگیا ۔
رپورٹ کا ایک اقتباس یہاں درج کیا جا تا ہے:
The omega-3 fatty acids found in fish such as salmon are already known to help the heart and brain stay healthy. The new studies, appearing Monday in the Archives of Ophthalmology, add to evidence that fish eaters also protect the eyes.
بلاشبہ مچھلی ایک حیات بخش شئے ہے۔ لیکن اس میں کانٹا بھی ہوتاہے۔ اس کے کھانے میں یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کا کانٹا نہ چبھ جائے۔ تو آپ کیا کرتے ہیں ؟ جب آپ مچھلی کھاتے ہیں تو اس کا کانٹا بہت ہی ہوشیاری سے نکال کرالگ کردیتے ہیں، آپ اس سے الجھتے نہیں۔
یہی دنیوی زندگی کا معاملہ ہے۔ اس دنیا کو خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں چیزوں میں حسنہ اور سیئہ کا پہلو لگا رہتاہے۔ یہاں دن کے ساتھ رات لگی رہتی ہے اور خیر کے ساتھ شرکا پہلو لگا رہتا ہے ۔ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ حسنہ کو لے لے اور سیئہ کو چھوڑ دے جس طرح وہ مچھلی کے گوشت کو لے لیتا ہے اور کانٹوں کو چھوڑ دیتا ہے ۔ یہی مچھلی کا سبق ہے۔

اتوار، 1 فروری، 2015

اسلام' ابوالبرکات اورالبرکہ


اسلام' ابوالبرکات اورالبرکہ

محمد آصف ریاض

وہ بہت خوبصورت اورحسین  لڑکی تھی ۔ گوکہ وہ یورپین طرزکا پوشاک پہنتی تھی لیکن اس کا دل اسلامی تھا۔ وہ ترک نزاد جرمن شہری تھی۔ وہ جرمنی میں اپنے والدین کے ساتھ رہائش پذیرتھی ۔ اس کا نام البرکہ(Tuğçe Albayrak) تھا۔ وہ محض 22 سال کی تھی۔
ایک دن وہ جرمنی کے ایک شہرسے گزررہی تھی کہ  تبھی قریب کے ایک رسٹورنٹ سے کچھ لڑکیوں کے چیخنے چلانے کی آوازآئی۔
 وہ اس آواز پردوڑی ہوئی رسٹورنٹ میں پہنچی ۔ وہاں دیکھا کہ دولڑکیاں اپنی عصمت کے تحفظ کے لئے سخت قسم کی جدوجہد کر رہی ہیں ۔ وہ شیرکی طرح دہاڑی اور بدقماشوں پرجھپٹ پڑی۔ اس نے دونوں لڑکیوں کوبچالیا لیکن اس عمل میں اسے اپنی جان گنوانی پڑی۔
یہ افسوسناک واقعہ 15 نومبر2014 کوپیش آیا اور18 تاریخ کوجرمنی کےایک اسپتال میں اس کی موت ہوگئی۔ اس کی موت کی خبرجنگل میں آگ کی طرح پورے جرمنی میں پھیل گئی ۔ لاکھوں جرمن شہری "میں البرکہ ہوں" کے نعروں کے ساتھ سڑکوں پرنکل پڑے۔ 10 لاکھ لوگوں نے آن لائن مہم چلا کرجرمن صدرسے مطالبہ کیا کہ البرکہ کو بعد ازمرگ بہادری کا قومی خطاب دیا جائے۔
اس واقعہ کے بعد جرمن صدرجواشم گاکPresident, Joachim Gauck)  ( نے اپنے تعزیت نامے میں یہ الفاظ لکھے:
"جب دوسرے لوگ دوسرارویہ اپنائے ہوئے تھے، ایسے نازک وقت میں البرکہ نے مثالی بہادری اورسماجی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا، وہ مشکل وقت میں تشدد کی شکارلڑکیوں کی مدد کے لئے آگے آئی ۔"
“Where other people looked the other way, Tugce showed exemplary bravery and civil courage and came to the aid of a victim of violence,” 
البرکہ نے اپنی قربانی دے کرجرمنی میں پھیلےاسلامو فوبیا کو بڑی حد تک کم کردیا۔ دوسرے لفظوں میں اس نے نفرت کی آگ کو محبت کے پانی سے بجھا دیا۔ اس نے خدا کے اس قول کو ثابت کیا کہ " وہ جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اسے بجھا دیتا ہے"
أَوْقَدُوْا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ
البرکہ کی قربانی جرمنی میں اسلام دشمن طاقتوں کے لئے مایوسی کا سبب بنی ۔ جرمنی میں اسلام کے بارے میں لوگوں کا نظریہ بدل گیا۔ اب اسلام جرمنی کا سرمایہ  asset) ) بن چکا ہے۔ البرکہ کی قربانی نے اسلام کے تئیں جرمن شہریوں کے منفی نظریہ کو یکسرتبدیل کردیا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جا سکتا ہے کہ البرکہ کی موت سے قبل جرمنی میں اسلام کے خلاف پگیدا (PEGIDA) کے نام سے ایک مہم چل رہی تھی لیکن البرکہ کی شہادت نےاسلام مخالف اس مہم کو ختم کر دیا۔ البرکہ کی شہادت کے بعد جرمن شہری اپنے آپ کو اسلام مخالف اس مہم سے الگ کرنے لگے ہیں۔ پریس ٹیوی نے اس کی رپورٹنگ ان الفاظ میں کی ہے:
Germany's anti-Islam PEGIDA movement breaks up

اگر آپ ماضی کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ جرمنی کا واقعہ اسی نوعیت کا ایک واقعہ ہے جوآج سے سات سوسال قبل یعنی چودہویں صدی میں مالدیپ میں پیش آیا تھا۔ اس واقعہ کا ذکر ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں خصوصی طور پرکیا ہے۔
ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ پہلے مالدیپ میں مورتی کی پوجا ہوتی تھی ۔ یہاں ہرمہینہ سمندرکے راستے سے ایک بلا آتی تھی۔ ایک مرتبہ ابوالبرکات نامی ایک بربراس جزیرے پراترا۔ وہ حافظ قرآن تھا۔ وہ وہاں ایک بڑھیا کے یہاں مہمان ٹھہرا ۔ ایک دن اس نے بڑھیا کو روتے ہوئے دیکھا توپوچھا کہ ماں ماجرا کیا ہے؟
بڑھیا نے بتایا "یہاں سمندرکے راستے ہرمہینے ایک بلا آتی ہے اوراس بلا کو روکنے کے لئے ہر بارایک آدمی کو اپنی قربانی دینی پڑتی ہے۔ اسے سجاکرسمندرکے کنارے چھوڑدیا جا تا ہے اورسمندری طوفان اسے کھا کراپنی بھوک مٹا لیتا ہے۔ اس طرح وہ لوگ اپنے ملک کو مجموعی تباہی سے بچا لیتے ہیں اوراس باراس کی بیٹی کے نام سے قرعہ نکلا ہے اوراب اسے اپنی بیٹی کی قربانی دینی ہوگی، اسی لئے گھر میں ہر طرف کہرام مچا ہے۔"
ابوالبرکات نے بڑھیا سے کہا کہ ماں توپریشان نہ ہواس بار سمند کی خوراک میں بنوں گا ۔ اس بار میں جائوں گا۔ چنانچہ ابوالبرکات کوسجا سنوار کر سمند کے کنارے لے جاکرچھوڑ دیا گیا۔ کہا جا تا ہے کہ ابوالبرکات وہاں رات بھر قرآن کی تلاوت کرتا رہا ۔ طوفان آیا اورچلا گیا۔
صبح شہر کے لوگ ابوالبرکات کی لاش برآمد کرنے پہنچے تو ابوالبرکات کو قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے پایا۔ یہ دیکھ کروہ حیران رہ گئے۔ لوگ اسے اٹھا کربادشاہ کے پاس لے گئے۔ بادشاہ بھی حیران ہوا اوراس نے کہا کہ اگراگلی بار بھی ہمارا ملک سمندرکےعتاب سے محفوظ رہا تو ہم سب لوگ ابوالبرکات کے مذہب پرایمان لے آئیں گے اورپھر وہی ہوا۔ دوبارہ طوفان آیا اورملک تباہی سے بچ گیا تو بادشاہ نے اسلام قبول کر لیا اوراس کے ساتھ پورا ملک اسلام میں داخل ہوگیا۔
ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ یہاں کی ایک مسجد پرایک کتبہ لگاہوا ہے جس پر لکھا ہوا ہے "سلطان احمد شنورازہ ابوالبرکات کے ہاتھ پراسلام لایا۔"
مالدیپ کے ابوالبرکات اورترکی کی البرکہ کو کس چیزنے اتنا بہادربنا دیا تھا؟ وہ کون سی قوت محرکہ تھی جوانھیں طوفان بلا سے ٹکرا رہی تھی؟
اللہ پر یہ بھروسہ کہ جو ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اگر وہ نفع پہنچانا چاہے توکوئی اسے روکنے والا نہیں اوراگروہ نقصان میں ڈالے تو کوئی اسے بچا نے والا نہیں۔