بیس سال کی کڑی مشقت کے بعد
محمد آصف ریاض
کل دہلی میں ایک صاحب سےملاقات ہوئی۔ بہت زمانہ
کےبعد یہ ملاقات ہوئی۔ آج سے تقریباً سات سال قبل جب میں پٹنہ یونیورسٹی کاطالبعلم
تھا توخدابخش لائبریری
میں ان سےملاقات ہوتی تھی۔ وہ بہت خاموش طبیعت کےآدمی ہیں۔ ملاقات کےدوران انھوں نےبتا
یا کہ اب وہ ریٹائرہوچکےہیں اوردہلی- پٹنہ کے درمیان اپناوقت گزاررہے ہیں۔ انھوں
نے بتا کہ ان کے بچوں نےدہلی میں اپنا مکان بنا لیاہے۔ ان کے کئی بچے ہیں۔ ایک بچہ
دہلی میں واقعہ ایک فرانسیسی کمپنی میں مینیجرہے، دوسرادبئی میں واقع ایک بڑی
کمپنی میں کام کرتاہے، بیٹی امریکہ میں رہتی ہے۔ ایک بیٹا ملیشیا میں جاب کرتا ہے۔
انھوں نے بتا کہ ان کے سارے بچے کامیاب زندگی گزاررہے ہیں۔ سبھوں نے دہلی میں مکان
بنا لیا ہے۔ پچھلے دنوں ان کا ایک بیٹا لیبیاسےواپس آیا ہےاوراس نےدہلی میں ہی
رہناشروع کردیا ہے۔ انھوں نےبتا یا کہ ان کےایک بیٹےنے پچھلے دنوں دہلی میں ایک
کارخریدی ہےجس کی قیمت بیس لاکھ روپے ہے۔ مطلب یہ کہ اب انھیں پیسہ کی کوئی کمی
نہیں رہ گئی ہے۔
میں نےان سے پوچھا کہ یہ سب کیسےممکن ہوا؟ آپ
نےاپنے بچوں کی پرورش کس اندازمیں کی کہ سب کامیاب ہیں اور بہترین زندگی گزاررہے
ہیں؟ میرے اس سوال پرانھوں نےکہانی کے پیچھے چھپی کہانی کودوہرانا شروع کیا۔
بیس سال کی خاموش مشقت کے بعد
"میں
پٹنہ میں جاب کرتا تھا۔ میری تنخواہ بہت زیادہ نہیں تھی۔ سات بچوں کی پرورش میرے
لئے بہت سخت جان معاملہ تھا۔ حالت یہ تھی کہ میری تنخواہ پورے ماہ تک نہیں چلتی
تھی۔ تنخواہ کے پیسہ سے پندرہ دن تک گھرچلتا تھااورپندرہ دن قرض پرکام چلتا تھا۔ یہ
صورت حال ایک دودن یاایک دوماہ باقی نہیں رہی۔ یہ صورت حال پورے "بیس سال"
تک باقی رہی۔ میں تنخواہ اٹھاتااوراپنا قرض چکا دیتا تھاپھر پندرہ دن کےبعد قرض
مانگنےکی ضرورت پڑجاتی تھی۔ سارے بچے پڑھ لکھ رہےتھےاس لئے پیسہ کی ضرورت کچھ
زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ بیس سال تک میں خاموشی کےساتھ اپنے بچوں کی تربیت کرتارہایہاں
تک کہ بچوں نے اپنی پڑھائی لکھائی مکمل کی اوربہترین ملازمت میں آگئے۔ آج جو کچھ
میرے پاس ہے وہ"
بیس سال" کی مشقت اورصبرکی کمائی ہے۔
برے وقت میں کوئی منفی فیصلہ مت کرو
یہ کہانی ایک شخص کی کہانی معلوم پڑتی ہے۔ تاہم اگرآپ
دوسرے لوگوں کی زندگی میں جھانک کردیکھیں توآپ کواسی قسم کی کہانی ہر جگہ مل جائے
گی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ہرکامیابی کےپیچھے "بیس سال" کی کڑی
جدوجہد چھپی ہوتی ہے۔ یہاں کی ہرطربناک کہانی اپنے اندرایک المناک کہانی رکھتی ہے۔
اگرآپ واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو دونوں قسم کی کہانیوں کوسنئے، صرف ایک قسم
کی کہانی آپ کو گمراہ کرسکتی ہے۔
امریکی مفکررابرٹ ایچ- شولر(Robert H. Schuller
) "پیدائش 16, 1926
" نے اسی بات کوان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
"موسم سرما میں کسی مرجھائے ہوئےدرخت کو مت
کاٹو۔ برے وقت میں کوئی منفی فیصلہ مت لو۔ جب خراب موڈ میں رہو توکوئی اہم فیصلہ
مت کرو۔ انتظارکرو، صبرکرو۔ دیکھو، طوفان گزرجائےگا اورموسم بہارپھرسے سایہ فگن
ہوگا۔"
“Never
cut a tree down in the wintertime. Never make a negative decision in the low
time. Never make your most important decisions when you are in your worst moods.
Wait. Be patient. The storm will pass. The spring will come”.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں