اس نے مجھے بات چیت میں دبا لیا ہے
قرآن میں حضرت دائود کے حوالے سے ایک نہایت سبق
آموزواقعہ بیان ہواہے۔ وہ واقعہ یہ ہے:
"جب وہ دائودکےپاس پہنچےتووہ انھیں دیکھ
کرگھبراگیا۔ انھوں نےکہاکہ ڈ
ریئے نہیں ہم دوفریق
مقدمہ ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پرزیادتی کی ہے۔
آپ ہمارے درمیان ٹھیک
ٹھیک حق کےساتھ فیصلہ کردیجئے۔ بےانصافی مت کیجئےاورہمیں راہ راست دکھایئے۔ یہ
ہمارابھائی ہےاس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اورمیرے پاس صرف ایک ہی دنبی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ
یہ ایک دنبی بھی میرے حوالےکردے اوراس نےگفتگومیں مجھےدبا لیاہے۔" (38:22-23)
حقیقت یہ ہے کہ اس زمین پردوقسم کےلوگ بستے ہیں۔
ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جوزمین پرسادہ زندگی گزارتے ہیں۔ دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں
جوبہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔
پہلےقسم کےلوگ وہ ہیں جوزمین پربے ضررزندگی
گزارتے ہیں۔ اگران سے کوئی غلطی سرزد ہوجائےتووہ فوراًاس کا اعتراف کرلیں گے۔ یہ
وہ لوگ ہیں کہ انھیں خداوند کی طرف سےجوملاہےاس پرراضی ہوتے ہیں۔ وہ ھل من المزید,
کے طالب نہیں ہوتے۔ وہ دوسروں کےمال پراپنی نگاہ نہیں گڑاتے۔ وہ ایسا نہیں کرتے کہ
کام کوئی اورکرے اوروہ اس کا کریڈٹ لےجائیں۔
اس کےبرعکس دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں جوبہت زیادہ
پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ جب وہ غلطی کریں گےتواعتراف نہیں کریں گے۔ وہ
اپنی غلطی کوخوبصورت الفاظ میں جسٹی فائی کریں گے۔ وہ جھوٹے الفاظ بول کراپنے کم
کوزیادہ بنانےکی کوشش کریں گے۔ وہ اپنی چرب زبانی سے دوسروں کودبالے جائیں گے۔ ان کا معاملہ ( عزنی
فی الخطاب) یعنی اس نے مجھے گفتگو میں دبا لیا ہے ،کا معاملہ ہوتاہے۔ وہ اکثرکسی شریف
انسان کوگفتگومیں دبا لیتے ہیں۔
اس دنیا میں انسان کے لئے یہ موقع ہے وہ اپنے
فریق کوبات چیت میں دبا لے۔ لیکن یہ موقع کسی انسان کوصرف اسی دنیا میں حاصل ہے۔
خدا وند کے یہاں کسی کویہ موقع نہیں ملےگا کہ وہ اپنی خطابت کی دھوم مچاکرلوگوں
کودبالے۔ خدا وند کے یہاں ایسے لوگوں کی زبان داغ دی جائے گی۔ ان کا جھوٹ ان کے
منھ پرماردیاجائےگا۔ آدمی وہاں دیکھے گا کہ جو شخص دنیا میں سب سے زیادہ بولتا
تھا،وہاں سب سے زیادہ چپ ہے۔ یہاں کا ہوشیار وہاں کا سب سے بڑا بودا نظر آئے گا۔
یہاں کا سب سے زیادہ ہنسنے والا وہاں کا سب سے زیادہ رونے والا ہوگا۔
قرآن میں بتا یا گیا ہے:
فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا
جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨٢﴾
پس انھیں چاہئے کہ بہت کم ہنسیں اورروئیں زیادہ
بدلےمیں اس کے جو وہ کرتے تھے۔(
9:82)
Let them laugh a little: much will they weep:
a recompense for the (evil) that they do
آدمی کیوں چرب زبانی کرتا ہے؟ صرف اس لئے کہ وہ
یہ گمان رکھتا ہے کہ اسے خدا وند کے یہاں جواب دہ نہیں ہونا ہے۔ حالانکہ کہ آدمی
دیکھتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد خدا وند کے یہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔ قرآن میں خبردارکردیا
گیا ہے کہ لوگ جس بات کو لےکربے خبر ہیں اورزمین پرسرکشی کررہے ہیں وہ بات
ہوکررہنے والی ہے یعنی خدا وند کے یہاں انسان کو اپنے قول و فعل کے لئے جواب دہ
ہونا ہے:
"وہ آنے والی آگئی۔ تیرے رب کے سوا اس
کوکوئی کھولنے والا نہیں۔ تم اس بات پرتعجب کرتے ہو، تم ہنستے ہواورروتے نہیں تم
سرکش لوگ ہو، پس اب اپنے رب کوسجدہ کرواوراس کی عبادت کرو۔" 53: 57-62))
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں