جمعرات، 26 ستمبر، 2013

No disappointment

مایوسی نہیں

محمد آصف ریاض
تین جولائی2013  کومصری جنرل عبد الفتح السیسی نےمصرکے پہلے جمہوری صدرمحمد مرسی کوایک فوجی بغاوت کے ذریعہ معزول کرکےانھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا۔ مرسی کی گرفتاری کے بعد مصرکی پہلی جموری حکومت کاخاتمہ ہوگیا۔  فوجی بغاوت کے دوسرے ہی دن سعودی عرب کویت اورمتحدہ عرب امارات نے بارہ بلین ڈالرسےمصری فوج کی مدد کی۔ بارہ بلین ڈالرکی خطیررقم پاکرسیسی کاحوصلہ کافی بڑھ گیا اوراس نےجمہوریت پسندوں کواپنی گولیوں کا نشانہ بنانا شروع کردیا۔ نتیجہ کارپورا ملک خون خرابےمیں مبتلاہوگیا۔ دنیا بھرمیں جمہوریت کی ڈینگ ہانکنےوالے یوروپ اورامریکہ نےمصری جمہوریت کا گلا گھونٹنےمیں اہم کرداراداکیااورفوجی بغاوت کوبغاوت کہنےسےانکارکردیا۔
ایک ایسے وقت میں جب کہ عرب حکمراں اپنے خزانے کا دروازہ سیسی پرکھولے ہوئے تھے اورفوجی بغاوت کی ہرممکن پشت پناہی کررہےتھےدبئی کےشاہ محمد بن راشد آل مکتوم کی بیٹی مہرالمکتوم اپنےضمیرکی آوازکودبا نہ سکیں اورانھوں نے سوشل میڈیا فیس بک پراپنے والد کی تصویرکے نیچے اپنےخیال کی ترجمانی کرتے ہوئے یہ الفاظ تحریر کردی:
"میرے باپ مجھےمعاف کرنا،لیکن سچائی یہ ہےکہ مصرمیں ہونے والی خوں ریزی کا سبب ہماراپیسہ ہے"
, “I’m sorry, father, but the reason for the bloodshed [in Egypt] is our money.”
http://www.hurriyetdailynews.com/
August/18/2013
اس واقعہ کو پڑھ کرمجھے قرآن کاایک واقع یادآگیا۔ قرآن کی سورہ یٰسین میں بستی والوں کا ذکرہواہے۔ اس میں بتایاگیا ہےکہ خداوند نےبستی والوں کی طرف دورسولوں کوبھیجا لیکن بستی والوں نےانھیں جھٹلادیاتوخداوند نےتیسرے سےان کی مدد کی لیکن انھوں نےاس تیسرے کوبھی جھٹلادیاتب قرآن کےبیان کےمطابق دورشہرسےایک شخص دوڑاہواآیااوراس نےکہا"اے میری قوم کےلوگو،رسولوں کی پیروی کرو، پیروی کروان لوگوں کی جوتم سے کوئی اجرنہیں چاہتےاورٹھیک راستے پرہیں۔" (36:20-21)
اس واقعہ سے پتہ چلتاہےکوئی سماج چاہےبرائی اورسرکشی کےکسی مقام پرپہنچ جائے،تب بھی اس میں کچھ باضمیر،حوصلہ مند اورصالح انسان باقی رہتے ہیں جواپنی فطری صلاحیت کی بنا کرسچائی کوپانےمیں کامیاب ہوجاتےہیں اوروہ اس کا برملا اظہارکرنے سے بھی نہیں گھبراتے۔ ایسے لوگ پہلے بھی تھےاورآج بھی ہیں۔

یہ درحقیقت امید کامعاملہ ہے۔ آدمی کوایسا ہرگزنہیں کرناچاہئے کہ وہ کسی سماج سے مجموعی طورپرمایوس ہوجائے۔ کسی سماج سے آپ کواس وقت تک پرامید رہنا ہےجب تک کہ اس سماج کےآخری آدمی کی رائے سامنےنہ آجائے۔ اوریہ کام صرف صبرسے ہوسکتا ہے۔اسی لئے قرآن میں صبرکوبہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ صبرکے ذریعہ کسی آدمی کووہ مطلوبہ انسان مل جاتے ہیں جن کے ذریعہ وہ اپنےمشن کومنزل تک پہنچاسکتا ہے۔ صبردرحقیقت انھیں پاکیزہ صفت انسانوں کوبولنےکاموقع دیناہے۔

And he got a better of me in argument

اس نے مجھے بات چیت میں دبا لیا ہے

قرآن میں حضرت دائود کے حوالے سے ایک نہایت سبق آموزواقعہ بیان ہواہے۔ وہ واقعہ یہ ہے:
"جب وہ دائودکےپاس پہنچےتووہ انھیں دیکھ کرگھبراگیا۔ انھوں نےکہاکہ ڈ ریئے نہیں ہم دوفریق مقدمہ ہیں جن میں سے ایک نے دوسرے پرزیادتی کی ہے۔ آپ ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک حق کےساتھ فیصلہ کردیجئے۔ بےانصافی مت کیجئےاورہمیں راہ راست دکھایئے۔ یہ ہمارابھائی ہےاس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اورمیرے پاس صرف ایک ہی دنبی ہے۔ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ ایک دنبی بھی میرے حوالےکردے اوراس نےگفتگومیں مجھےدبا لیاہے۔" (38:22-23)
حقیقت یہ ہے کہ اس زمین پردوقسم کےلوگ بستے ہیں۔ ایک قسم کے لوگ وہ ہیں جوزمین پرسادہ زندگی گزارتے ہیں۔ دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں جوبہت پیچیدہ ہوتے ہیں۔
پہلےقسم کےلوگ وہ ہیں جوزمین پربے ضررزندگی گزارتے ہیں۔ اگران سے کوئی غلطی سرزد ہوجائےتووہ فوراًاس کا اعتراف کرلیں گے۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ انھیں خداوند کی طرف سےجوملاہےاس پرراضی ہوتے ہیں۔ وہ ھل من المزید, کے طالب نہیں ہوتے۔ وہ دوسروں کےمال پراپنی نگاہ نہیں گڑاتے۔ وہ ایسا نہیں کرتے کہ کام کوئی اورکرے اوروہ اس کا کریڈٹ لےجائیں۔
اس کےبرعکس دوسرے قسم کے لوگ وہ ہیں جوبہت زیادہ پیچیدہ ہوتے ہیں۔ ان کا حال یہ ہے کہ جب وہ غلطی کریں گےتواعتراف نہیں کریں گے۔ وہ اپنی غلطی کوخوبصورت الفاظ میں جسٹی فائی کریں گے۔ وہ جھوٹے الفاظ بول کراپنے کم کوزیادہ بنانےکی کوشش کریں گے۔ وہ اپنی چرب زبانی سے دوسروں کودبالے جائیں گے۔ ان کا معاملہ ( عزنی فی الخطاب) یعنی اس نے مجھے گفتگو میں دبا لیا ہے ،کا معاملہ ہوتاہے۔ وہ اکثرکسی شریف انسان کوگفتگومیں دبا لیتے ہیں۔
اس دنیا میں انسان کے لئے یہ موقع ہے وہ اپنے فریق کوبات چیت میں دبا لے۔ لیکن یہ موقع کسی انسان کوصرف اسی دنیا میں حاصل ہے۔ خدا وند کے یہاں کسی کویہ موقع نہیں ملےگا کہ وہ اپنی خطابت کی دھوم مچاکرلوگوں کودبالے۔ خدا وند کے یہاں ایسے لوگوں کی زبان داغ دی جائے گی۔ ان کا جھوٹ ان کے منھ پرماردیاجائےگا۔ آدمی وہاں دیکھے گا کہ جو شخص دنیا میں سب سے زیادہ بولتا تھا،وہاں سب سے زیادہ چپ ہے۔ یہاں کا ہوشیار وہاں کا سب سے بڑا بودا نظر آئے گا۔ یہاں کا سب سے زیادہ ہنسنے والا وہاں کا سب سے زیادہ رونے والا ہوگا۔
قرآن میں بتا یا گیا ہے:
   فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ﴿٨٢﴾
پس انھیں چاہئے کہ بہت کم ہنسیں اورروئیں زیادہ بدلےمیں اس کے جو وہ کرتے تھے۔( 9:82)
Let them laugh a little: much will they weep: a recompense for the (evil) that they do
آدمی کیوں چرب زبانی کرتا ہے؟ صرف اس لئے کہ وہ یہ گمان رکھتا ہے کہ اسے خدا وند کے یہاں جواب دہ نہیں ہونا ہے۔ حالانکہ کہ آدمی دیکھتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد خدا وند کے یہاں پہنچا دیا جاتا ہے۔ قرآن میں خبردارکردیا گیا ہے کہ لوگ جس بات کو لےکربے خبر ہیں اورزمین پرسرکشی کررہے ہیں وہ بات ہوکررہنے والی ہے یعنی خدا وند کے یہاں انسان کو اپنے قول و فعل کے لئے جواب دہ ہونا ہے:
"وہ آنے والی آگئی۔ تیرے رب کے سوا اس کوکوئی کھولنے والا نہیں۔ تم اس بات پرتعجب کرتے ہو، تم ہنستے ہواورروتے نہیں تم سرکش لوگ ہو، پس اب اپنے رب کوسجدہ کرواوراس کی عبادت کرو۔" 53: 57-62))

منگل، 24 ستمبر، 2013

Never make a negative decision in the low time

بیس سال کی کڑی مشقت کے بعد

محمد آصف ریاض

کل دہلی میں ایک صاحب سےملاقات ہوئی۔ بہت زمانہ کےبعد یہ ملاقات ہوئی۔ آج سے تقریباً سات سال قبل جب میں پٹنہ یونیورسٹی کاطالبعلم تھا توخدابخش لائبریری میں ان سےملاقات ہوتی تھی۔ وہ بہت خاموش طبیعت کےآدمی ہیں۔ ملاقات کےدوران انھوں نےبتا یا کہ اب وہ ریٹائرہوچکےہیں اوردہلی- پٹنہ کے درمیان اپناوقت گزاررہے ہیں۔ انھوں نے بتا کہ ان کے بچوں نےدہلی میں اپنا مکان بنا لیاہے۔ ان کے کئی بچے ہیں۔ ایک بچہ دہلی میں واقعہ ایک فرانسیسی کمپنی میں مینیجرہے، دوسرادبئی میں واقع ایک بڑی کمپنی میں کام کرتاہے، بیٹی امریکہ میں رہتی ہے۔ ایک بیٹا ملیشیا میں جاب کرتا ہے۔ انھوں نے بتا کہ ان کے سارے بچے کامیاب زندگی گزاررہے ہیں۔ سبھوں نے دہلی میں مکان بنا لیا ہے۔ پچھلے دنوں ان کا ایک بیٹا لیبیاسےواپس آیا ہےاوراس نےدہلی میں ہی رہناشروع کردیا ہے۔ انھوں نےبتا یا کہ ان کےایک بیٹےنے پچھلے دنوں دہلی میں ایک کارخریدی ہےجس کی قیمت بیس لاکھ روپے ہے۔ مطلب یہ کہ اب انھیں پیسہ کی کوئی کمی نہیں رہ گئی ہے۔
میں نےان سے پوچھا کہ یہ سب کیسےممکن ہوا؟ آپ نےاپنے بچوں کی پرورش کس اندازمیں کی کہ سب کامیاب ہیں اور بہترین زندگی گزاررہے ہیں؟ میرے اس سوال پرانھوں نےکہانی کے پیچھے چھپی کہانی کودوہرانا شروع کیا۔
بیس سال کی خاموش مشقت کے بعد
"میں پٹنہ میں جاب کرتا تھا۔ میری تنخواہ بہت زیادہ نہیں تھی۔ سات بچوں کی پرورش میرے لئے بہت سخت جان معاملہ تھا۔ حالت یہ تھی کہ میری تنخواہ پورے ماہ تک نہیں چلتی تھی۔ تنخواہ کے پیسہ سے پندرہ دن تک گھرچلتا تھااورپندرہ دن قرض پرکام چلتا تھا۔ یہ صورت حال ایک دودن یاایک دوماہ باقی نہیں رہی۔ یہ صورت حال پورے "بیس سال" تک باقی رہی۔ میں تنخواہ اٹھاتااوراپنا قرض چکا دیتا تھاپھر پندرہ دن کےبعد قرض مانگنےکی ضرورت پڑجاتی تھی۔ سارے بچے پڑھ لکھ رہےتھےاس لئے پیسہ کی ضرورت کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی۔ بیس سال تک میں خاموشی کےساتھ اپنے بچوں کی تربیت کرتارہایہاں تک کہ بچوں نے اپنی پڑھائی لکھائی مکمل کی اوربہترین ملازمت میں آگئے۔ آج جو کچھ میرے پاس ہے وہ" بیس سال" کی مشقت اورصبرکی کمائی ہے۔
برے وقت میں کوئی منفی فیصلہ مت کرو
یہ کہانی ایک شخص کی کہانی معلوم پڑتی ہے۔ تاہم اگرآپ دوسرے لوگوں کی زندگی میں جھانک کردیکھیں توآپ کواسی قسم کی کہانی ہر جگہ مل جائے گی۔ سچی بات یہ ہے کہ اس دنیا میں ہرکامیابی کےپیچھے "بیس سال" کی کڑی جدوجہد چھپی ہوتی ہے۔ یہاں کی ہرطربناک کہانی اپنے اندرایک المناک کہانی رکھتی ہے۔ اگرآپ واقعی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو دونوں قسم کی کہانیوں کوسنئے، صرف ایک قسم کی کہانی آپ کو گمراہ کرسکتی ہے۔
امریکی مفکررابرٹ ایچ- شولر(Robert H. Schuller ) "پیدائش 16, 1926 " نے اسی بات کوان الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔
"موسم سرما میں کسی مرجھائے ہوئےدرخت کو مت کاٹو۔ برے وقت میں کوئی منفی فیصلہ مت لو۔ جب خراب موڈ میں رہو توکوئی اہم فیصلہ مت کرو۔ انتظارکرو، صبرکرو۔ دیکھو، طوفان گزرجائےگا اورموسم بہارپھرسے سایہ فگن ہوگا۔"

 “Never cut a tree down in the wintertime. Never make a negative decision in the low time. Never make your most important decisions when you are in your worst moods. Wait. Be patient. The storm will pass. The spring will come”.

بدھ، 4 ستمبر، 2013

He raised the heavens and set up the measure

اس نےآسمان کواونچاکیااورترازورکھدی

محمد آصف ریاض
قرآن میں بیان ہواہےکہ خداوندنےآسمان کوبنایا،اس کواونچاکیااورترازورکھ دی۔ )رحمٰن آیت 12-13)
خداوند عدل اورانصاف کی دنیا قائم کرناچاہتاہے۔ وہ چاہتاہےکہ اس کا بندہ ہرحال میں عدل کی روش پرقائم رہے۔ دوسری جگہ فرمایا کہ یقیناًہم نےاپنے رسولوں کودلیلوں اورترازوکےساتھ بھیجاہے۔
اوپرکی آیت میں ترازوکا ذکرآسمان کی بنلدی کےساتھ آیاہے۔ یعنی"آسمان کواونچا کیااوترازورکھدی" میں سوچ رہا تھا کہ آسمان کی بلندی کےساتھ ترازوکا کیا تعلق ہے۔ کیوں ایسا ہوا کہ خدا وند نےآسمان کےساتھ ترازوکا ذکرکیا۔ بہت غورکرنے پراس معاملہ میں مجھے تین باتیں سمجھ میں آئیں۔
اول یہ کہ آسمان میں کوئی کجی نہیں ہے۔ وہ بہت بیلینس اورتوازن کےساتھ کھڑاہے۔ وہ کسی طرف جھکا ہوانہیں ہے۔ اگروہ ایسا ہوتا توہمارے سرپرگرپڑتا۔ خداوند چاہتا ہےکہ انسان اسی طرح عدل قائم کرے۔ وہ انصاف کےمعاملہ میں کسی رجحان کا شکارہوکرکسی طرف جھک نہ جائے۔ وہ ترازوکوبالکل سیدھااوربیلینسڈ رکھے۔ آسمان کانہایت توازن کےساتھ کھڑاہونا گویا لفظ عدل اورترازوکاعملی اظہارہے۔آسمان کوتوازن کےساتھ کھڑاکرکےخداوند بندوں کوعملاً دکھارہاہےکہ وہ اسی طرح  زمین پرتراوزوکورکھاہوادیکھناچاہتاہے۔ وہ اسی طرح زمین پرعدل قائم ہوتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔  
آسمان کےساتھ ترازو یعنی عدل کو بریکیٹ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ آسمان کا سنبھالے رکھناایک نہایت دشوارامرہے۔ یہ صرف خداہےجوآسمان کوسنبھالے ہوئےہے۔ اوراگروہ گرجائے توخداوند کےسواکوئی اورہے بھی نہیں جواسے سنبھال سکے۔ چنانچہ فرمایا "قسم ہے آسمان کی اوراس کے بنانےکی"91:5) (
جس طرح آسمان کا قائم رکھنا ایک دشوارترین امرہے۔ اسی طرح زمین پرعدل کو قائم کرنا بھی ایک مشکل ترین امرہے۔ عدل کے قیام میں کئی بارایساہوتاہے کہ آدمی کوخود اپنےگلے پرچھری چلانی پڑتی ہے۔ کئی بارخود اپنی آل اولاد اس عدل کے تقاضے کی زد میں آجاتی ہے۔ کئی باراپنے ہی کنبہ اورقبیلہ کےخلاف فیصلہ سنانا پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کریہ کہ فیصلہ پلٹنے کی طاقت رکھنے کے باوجود اپنےخلاف جانے والے فیصلہ پرقائم ہونا پڑتا ہے۔ یہ اتنا سخت اورعظیم کام ہےجیسے کسی نے اپنے ہاتھوں سےآسمان کواٹھالیاہو۔اسی لئےترازوکا ذکرخدا وند نےآسمان کےساتھ کیا کیونکہ دونوں اپنی عظمت اورشان میں یکساں ہیں۔ جتنا عظیم کام آسمان کا کھڑا کرنا ہے اتنا ہی عظمت والا کان زمین پرعدل اورانصاف کوقائم کرنا ہے۔ اسی لئے فرمایا" آسمان کوبلند کیااورترازورکھ دی"۔

سوم یہ کہ آسمان کی بلندی اس کی عظمت اورعلو شان کو بتاتی ہے۔ اسی طرح زمین پرعدل قائم کرنے والا بھی آسمان کی طرح عظیم اوربلند ترہوکرابھرتاہے۔ دوسرے لفظوں میں کہاجا سکتا ہےکہ جتنا عظیم آسمان ہےاتنی ہی عظمت والا زمین پروہ شخص ہے جس نے زمین پرعدل کوبغیرکسی رجحان کے نہایت توازن کے ساتھ قائم کیا، جس نے ترازو کوسیدھا رکھا اوراس میں کسی قسم کی کجی نہیں کی جس طرح آسمان میں کوئی کجی نہیں ہے۔ اسی لئے انصاف اور ترازو کو خداوند نے آسمان کے ساتھ بریکیٹ کیا۔