آپ کے بچوں میں آپ کے لئے نشانیاں ہیں
محمد آصف ریاض
16 اگست 2012 کی صبح جب میں آفس کے لئے نکل رہا تھا تو میرا
بیٹا یحی دوڑا ہوا میرے پاس آیا اور بولنے لگا، ابو ٹوفی لے کر آئیے گا ، آم لے کر
آ ئیے گا۔ ابھی اس کا مطالبہ ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ بیٹی مد یحہ دوڑی ہوئی آئی اور
اس نے بھی اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں مطالبہ شروع کر د یا۔
جب بیٹا بول رہا تھا تو وہ ایک اور ہی انداز میں بول رہا تھا اور جب بیٹی
بول رہی تھی تو وہ ایک اور ہی انداز میں بول رہی تھی۔ یہ دیکھ کر مجھے قرآ ن کی یہ
آیت یاد آگئی :” اور اس کی نشانیوں میں سے آسمان و زمین کی پیدائش، اور تمہاری زبا
نوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف ہے ، یقینا اس میں بہت سی نشا نیاں ہیں عقلمندوں کے
لئے۔“ {30:22}
میں سوچنے لگا کہ خدا نے انسان اول یعنی آدم کو مٹی سے بنا یا ۔ ارشاد
باری تعالیٰ ہے: ” جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں،
پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دو ں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے
میں گرجانا“-72}38:71{ دوسری
جگہ ارشاد ہے: " وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا"۔( 6—2)
بائبل میں ہے۔” خدا وند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کی تخلیق کی اور
اس کے اندر زندگی کی روح پھونک دی اور انسان زندہ جاگتا ہوگیا"۔
The LORD God formed the man from the dust of the
ground and breathed into his nostrils the breath of life, and the man became a
living being.
New
International Version (1984)
انسان اول کو خدا نے مٹی سے بنایا پھر اس کے بعد اپنا طریقہ بدل دیا۔
اب انسان اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے ۔خداوند اس بات پر قادر تھا کہ وہ انسانوں
کی تخلیق مٹی سے کرتا جیسا کہ اس نے انسان اول کے معاملہ میں کیا۔ لیکن ایسی صورت میں
پوری انسانیت گھا ٹے میں پڑ جاتی ۔ خدا اگر اپنے پہلے طریقہ پر قائم رہتا تو جس طرح
زندہ پودے زمین پھاڑ کر نکلتے ہیں ، جس طرح وہ کھاتے ہیں ،سانس لیتے ہیں ، سورج کی
توانائی لیتے ہیں اور زمین پر اپنی زندگی کی مدت پو ری کرکے ختم ہوجاتے ہیں ، اسی طرح
انسان بھی کھیتو ں میں زمین پھاڑ کر نکلتا، وہ کھانا کھا تا ، پانی پیتا، سورج کی توانا
ئی لیتا اور اپنی زندگی کی مدت پوری کر کے مرجا تا۔
ذرا تصور کیجئے کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا ہوتا؟
زمین پر انسان کی کوئی قدر نہ ہوتی ۔ انسان پیڑ اور پودوں کی طرح ہوکر
رہ جاتا۔ جس طرح انسان درختوں کے ساتھ معاملہ کرتا ہے اسی طرح خود انسانوں کے ساتھ
معاملہ کیا جا تا ۔ مثلاً جس طرح انسان کچھ درختوں کو کاٹ دیتا ہے اور کچھ کو جلا دیتا
ہے اسی طرح انسان کو کاٹ دیا جا تا اور کچھ کو جلا دیا جا تا۔
ایسی صورت میں انسان اس سے چیز سے محروم
ہوجا تا جسے شفقت ، محبت ، ہمدردی ، بردباری اور پیار کہا جا تا ہے۔ ایسی صورت میں
انسان اپنی ماں کو کھو دیتا۔ وہ اپنی بہن اور اپنے بھا ئی کو کھو دیتا ، وہ اپنے باپ
اور دادا سے محروم ہوجا تا ۔ وہ اپنی آل اولاد اپنے کنبہ اور قبیلہ کو کھودیتا،جس پرآج
وہ فخر کرتا ہے۔
خدا اگر اپنے پہلے طریقہ پر قائم رہتا تو زمین کا سارا نظام درہم برہم
ہوکر رہ جا تا ۔ خدا چونکہ دانا و بینا ہے ۔ اس نے اپنے بندوں کے نقصان کو دیکھا اور
اپنے طریقہ کو بد ل کر اسے ماں باپ ، بھائی بہن، بیوی بچہ، کنبہ اور قبیلہ والا بنا
یا، تاکہ انسان خدا کا شکر ادا کرے۔ لیکن افسوس کہ انسان اپنی آل اولاد اور اپنے کنبہ
اور قبیلہ پر فخر تو کرتا ہے لیکن خدا کا شکر نہیں کرتا۔ وہ اسی کو بھول گیا جس نے
اسے کنبہ اور قبیلہ والا بنایا۔
انسان پر لازم ہے کہ جب وہ اپنی آل اولاد اور اپنے کنبہ اور قبیلہ کی
طرف دیکھے تو وہ خدا کے شکر میں نہا جائے، اور پکار اٹھے ”اے ہمارے رب ہمیں اپنی بیویوں
اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا“ ۔} {25-74
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں