دستیاب مواقع کو جانئے
محمد آصف ریاض
25جولائی 2012 کی شام ایک مسلم نوجوان
ملنے کے لئے آئے ۔ وہ کچھ مایوس نظر آرہے تھے ۔ بات چیت کے دوران انھوں نے بتا یا
کہ وہ زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے پچھڑ گئے ہیں۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ اس دنیا نے
ان کو کم دیا ہے اور دوسروں کو زیادہ ۔
میں نے
انھیں بتا یا کہ آپ کی یہی سوچ آپ کی ناکامی کا سبب ہے ۔ آپ دوسروں کا بوجھ اپنے او
پر اٹھائے پھر رہے ہیں۔ اور جب تک آپ کے او پر یہ بوجھ رہے گا، آپ اپنے آپ کو
دوسروں سے بہتر نہیں بنا سکتے۔ سب سے پہلے
آپ اس بوجھ کو اپنے سر سے اتارئے۔ آپ کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دوسروں کو زیادہ ملا اور آپ
کو کم ۔ آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی نگاہ ہمیشہ دوسروں پر لگی رہتی ہے۔
دوسروں کو کیا ملا ؟ آپ اسے بھول جائے ۔ آپ اپنےملے ہوئے مواقع کو استعمال کیجئے۔ دانا
آدمی ہمیشہ دستیاب مواقع کے استعمال کو جانتا ہے اور نادان ہمیشہ غیر دستیاب مواقع
کی فکر میں اپنے آپ کو بوڑھا کرتا ہے۔
میری اس بات پر انھوں نے کہا کہ اگر میں چیزوں
کو اسی طرح لوں تو میرے بچوں کا کیا ہوگا ؟ وہ تو زندگی کی دوڑ میں دوسروں سے پچھڑ
جائیں گے؟
میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ اپنے بچوں کی زندگی خود تعمیر کرتے ہیں ۔ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ
دوہرے قسم کی نادانی میں مبتلا ہیں۔
اس زمین پر کوئی بچہ ایسا نہیں جو اپنے
ساتھ اپنی دنیا لے کر نہ آیا ہو ۔ خدا نے
ہر بچہ کو مسٹر ڈفرنٹ بنا کر پیدا کیا ہے اور اس کی ترقی کے لئے داخلی اور خارجی
دونوں سطح پر انتظام فرمایا ہے۔
مثلاً ہر بچہ اپنے ساتھ دل اور دماغ لے کر آتا ہے ۔ اس کے پاس ہاتھ اور
پا وَ ں ہوتے ہیں ۔اس کے ساتھ ہی اس کے سر پر ایک کھلا آسمان ہوتا ہے اوراس کے
قدموں کے نیچے ایک وسیع و عریض زمین ہوتی ہے ۔ اس کے سامنے موجیں مارتا ہوا سمند ر
ہوتا ہے اور اونچے اونچے پہاڑ ہوتے ہیں جو اسے اس بات کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ
سمندر کی موجوں سے ٹکرائے اور پہاڑ کی بلنیدیوں پر اپنی کامیابی کا جھنڈا لہرا ئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں