ہفتہ، 28 جون، 2014

گمراہ کرنے والے لیڈر

محمد آصف ریاض


معروف مصنف اورصحافی کلدیپ نیئرنےاپنی سوانح Beyond The Lines میں لکھا ہے کہ 1965 میں جب ہندو پاک کے درمیان جنگ کی نوبت آ گئی تو آرمی چیف جنرل جے این چودھری جنگ کے لئے تیار نہ تھے۔ وہ جنگ سے ہرحال میں بچنا چاہ رہے تھے۔


اس پر آرمی چیف کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک بہاری ایم پی ڈاکٹر رام سبھاگ سنگھ (Ram Subhag Singh )نے کہا: " تم بنگا لی لوگ لڑائی سے ڈرتے ہو ۔ ہم بہاری لوگ ڈرتے نہیں، ہم نڈر ہوتے ہیں ۔ یہ سن کرچودھری نے وہیں کمرے میں رکھی ہوئی ایک مشین گن کواٹھا یا اور مذکورہ رکن پارلیمنٹ کوتھما دیا۔ وہ مشین گن اتنی بھاری تھی کہ مذ کورہ ایم پی اسے آسانی سے اٹھا نہ سکا"


Chaudhri handed him a machine gun lying in his room, which Dr Singh found even difficult to lift.


یہ ایک واقعہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آدمی بذات خود چاہے کتنا ہی بڑا بزدل کیوں نہ ہو تاہم بہادری کی بات اسے پسند آتی ہے۔ ہر آدمی جنگ کی بات پسند کرتا ہے جب تک کہ جنگ کی آنچ خود اس کے اپنے سر تک نہ پہنچ رہی ہو ۔ ہمارے لیڈر جنگ کی بات کرتے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ انھیں لڑنا نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا کہ خود لیڈر کو بھی میدان جنگ میں جا نا پڑتا تو دنیا میں بہت کم لیڈر ہوتے جو جنگ کی بات کرتے۔


ابھی حال ہی میں عراق میں جنگ کی آگ بھڑک اٹھی ہے۔ وہاں شیعی حکومت مالکی کے جبرخلاف سنیوں کے ایک گروہ نے بغاوت کردیا ہے۔ مالکی کو اس جنگ میں بھاری ہزیمت اٹھانی پڑی ہے ۔ اس کی شکست سے دلبرداستہ ہوکر لکھنئو اور دہلی کے کچھ شیعوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اورانقلاب نامی اردو اخبار میں عراق جانے والے جاں فروشوں کی بحالی کا اشتہار دیا۔ شیعوں کے گروپ انجمن حیدری نے دعویٰ کیا کہ انھیں کئی ہزاررضا کارمل چکے ہیں جوعراق جانے کے لئے تیاربیٹھے ہیں۔ بہادرعباس نقوی نامی شیعہ مولوی نے نوجوانوں کوجمع کیا اورانھیں عراق جانے کے لئے راضی کیا۔


ایک انگریزی اخبار نے اس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا۔


Meanwhile, a city-based Shia Muslim organization has enlisted around 19,000 volunteers to travel to trouble-torn Iraq to defend the holy shrines in Karbala and Najaf and provide aid to the suffering Iraqis.

On Wednesday, Shia group Anjuman-e-Haidari distributed forms seeking volunteers to travel to Iraq ۔


دہلی سے نکلنے والے اردو اخبار روزنامہ انقلاب میں 28 جون 2014 کوایک اشتہار شائع ہوا ہے۔ اس اشتہار میں بتا یا گیا ہے کہ مولوی کلب جواد نقوی جو اس مہم کی قیادت کر رہے ہیں عراق کے سفر سے واپس آ چکے ہیں اوراب وہ شیعہ نوجوانوں کو عراق بھیجنے کے لئے تیار کر رہے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ جنگ موصل ، تکریت، فالوجہ ، اور کرکوک میں چل رہی ہے اورمولوی موصوف بغداد گھوم کرگھرواپس آئے ہیں لیکن اشتہاراس طرح دے رہے ہیں جیسے گویا ابھی ابھی میدان جنگ سے وارد ہوئے ہیں۔
یہ جھوٹی لیڈر شپ کا معاملہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے حدیث میںالا ئمۃ المضلین کہا گیا ہے۔


حضرت ابو ذرغفاری کی ایک روایت کے مطابق، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غیر الدجال اخوف علیٰ امتی ( مسند احمد 145/5 ) یعنی میں اپنی امت پردجال کے علاوہ ایک اور چیز سے ڈرتا ہوں۔ پوچھا گیا کہ اے خدا کے رسول وہ کیا چیز ہے جس سے آپ اپنی امت کے اوپر دجال سے بھی زیادہ ڈررتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ( الا ئمۃ المضلین) یعنی گمراہ کرنے والے لیڈر۔

ہفتہ، 21 جون، 2014

تاریخ کا آغاز آپ اپنی منشا کے مطابق کر سکتے ہیں لیکن اس کا انجام بھی آپ کی منشا کے مطابق ہو خدا کی دنیا میں اس کا امکان بہت کم ہے

محمد آصف ریاض

سچرکمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہندوستانی مسلمان اس ملک میں غریبوں کا کنبہ بن کررہ گئے ہیں۔ رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان غربت کا عالم یہ ہے کہ وہ دلتوں اور پسماندہ طبقات سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔ ڈی این اے نامی ایک انگریزی اخبار نے اس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا ہے:


"مسلم اوبی سی دوسرے اوبی سی سے 50 فیصد زیادہ غریب ہیں بلکہ یہ فرق بڑھتا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی معاشی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔"


Muslim OBCs reported 50 per cent higher poverty than other OBCs. The gap has gone up in these years and their economic condition is worsening, the report states.


غریبی آخرکار موت کا سبب بنتی ہے۔ غریبی کی وجہ سے صحت عامہ کا نظام بگڑ تا ہے، ماحولیات میں آلودگی پیدا ہوتی ہے، بیماری میں اضافہ ہوتا ہے اورنتیجہ کار شرح اموات بڑھ جاتی ہے۔ لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا۔ اہل علم خاص طورسے آرایس ایس کے ماہرین پریشان ہیں کہ غریبی کے با وجود مسلمان مرکیوں نہیں رہے ہیں؟

ایک رپورٹ

انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پپولیشن سائنس (International Institute for Population Sciences) نے "ہندوستان میں سماجی اورمعاشی گروپس کے ذریعہ انسانی تفریق"(Inequality in Human Development by Social and Economic Groups in India) کے عنوان پرایک تحقیق شائع کی ہے۔


اس تحقیق میں کئی چونکا نے والے پہلو سامنے آئے ہیں۔ اس میں بتا یا گیا ہے کہ 2005-06 میں ہندوئوں کی لائف اکسپنٹنسی یعنی متوقع عمر مسلمانوں سے کم یعنی 65 سال تھی جبکہ مسلمانوں کی متوقع عمر 68 سال یعنی ہندوئوں سے 3 سال زیادہ ۔ رپورٹ میں بتا یا گیا ہے کہ مجموعی طور پر مسلمان ہندوئوں سے زیادہ جیتے ہیں:


The overall point, however, remains, that at birth a Muslim has a chance of living longer than a Hindu


نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2005-06) ) میں بتایا گیا ہے کہ ہندوئوں کا ایک بڑا طبقہ بچپن میں ہی مر جا تا ہے۔ ہندوئوں میں نومولد کے مرنے کی اوسط شرح 58.5 ہے جبکہ مسلمانوں کے درمیان یہ اوسط 52.4 ہے۔ اسی طرح پانچ سال سے کم عمر میں ہندو بچوں کی موت کی شرح 76 ہے جبکہ مسلمانوں کے درمیان یہ شرح 70 یعنی ہندوئوں سے 6 کم ہے۔


This is clearly related to the fact that in childhood itself a higher proportion of Hindus die. Hindus have an infant mortality rate of 58.5, while the same rate among the Muslims is at 52.4, according to the National Family Health Survey (2005-06), where the infant mortality rate is defined as the probability of dying before the first birthday. Similarly, under-5 mortality is at a high of 76 compared with 70 for Muslims.


یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں کو اس ملک میں نہ بھوک مار سکتی ہے اور نہ کسی قوم کی کوئی سازش۔ مسلمانوں کو وہی مار سکتا ہے جو انھیں زندہ رکھتا ہے۔ قرآن میں اسی بات کو ان الفاظ میں سمجھا یا گیا ہے۔


وَمَا کُنَّا مُھْلِکِی الْقُرآی اِلَّا وَ اَھْلُھَا ظٰلِمُوْنَ.(القصص ۲۸: ۵۹


"اورہم بستیوں کو ہلاک کرنے والے نہیں تھے، مگراسی وقت جب کہ ان کے باشندے (اپنے اوپر) ظلم ڈھانے والے بن جاتے ہیں۔‘‘


ملک کے مسلمانوں پرغریبی تھوپنا اگراس سازش کا نتیجہ تھا کہ مسلمان غریبی کی وجہ سے مر کر ختم ہوجائیں تو ایسا نہیں ہوا بلکہ اس کا الٹا ہوگیا، یعنی مسلمانوں کی تعداد غریبی کی وجہ سے گھٹنے کے بجائے بڑھنے لگی۔ اس سے پتہ چلا کہ آدمی تاریخ کی ابتدا اپنی منشا کے مطابق کر سکتا ہے لیکن اس کا انجام بھی اسی کی منشا کے مطابق ہو، خدا کی اس دنیا میں اس کا امکان بہت کم ہے۔

اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کی مسلمانوں کے لئے غریبی اور امیری دو نوں رحمت ہے ۔ خدا جب ان کی بھلائی غریبی میں دیکھتا ہے تو وہ انھیں غریب کر دیتا ہے اور جب ان کی بھلائی امیری میں دیکھتا ہے تو وہ انھیں امیربنا دیتا ہے۔ خدا اپنے بندوں کو وہ دیتا ہے جو ان کے لئے بہتر ہو۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ہرحال میں خدا کا شکر گزار بنا رہے۔ اس کے اندر حضرت ایوب کی اسپرٹ ہو کہ جب ایوب سے ان کا سب کچھ چھین لیا گیا یہاں تک کہ ان کے جسم کوکیڑوں نے کھانا شروع کردیا اورننگے رہنے کی نوبت آگئی تو آپ نے اپنا سر زمین پر ڈال دیا اوریوں گویا ہوئے

"ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے آیا تھا ننگا ہی میں جائوں گا، خدا وند نے دیا تھا خدا وند نے لے لیا خدا وند کا نام مبارک ہو۔"

and said: "Naked I came from my mother's womb, and naked I will depart. The LORD gave and the LORD has taken away; may the name of the LORD be praised."

Job 1:21

منگل، 17 جون، 2014

روزہ سائنس اور اسلام

محمد آصف ریاض

ایک جدید سائنسی مطالعہ سے پتہ چلا ہےکہ روزہ سے روحا نی فوائد کے ساتھ کئی قسم کے جسمانی فوائد بھی حا صل ہوتے ہیں۔ ٹائمزآف انڈیا کی ایک رپورٹ میں بتا یا گیا ہے روزہ کینسرکی روک تھام میں اہم کردارادا کرتا ہے۔ رپورٹ کی سرخی اس طرح لگائی گئی ہے: Fasting may be the best way to combat cancer
رپورٹ میں بتا یا گیا ہےکہ یونیورسٹی آف سائودرن کلیفورنیا University of Southern California میں سائنسدانوں نے چوہوں پرتجربہ کیا۔ تجربے میں پتہ چلا کہ فاسٹنگ کی وجہ سے چوہوں کے ٹیومرسلس نارمل سلس سے مختلف اندازمیں ری ایکٹ کر رہے تھے۔ فاسٹنگ کی وجہ سے سلس ہائبرنیشن کی حالت میں جانے کے بجائے بڑھتے اور متفرق ہوتے گئے یہاں تک کہ انھوں نے اپنے آپ کو تباہ کرلیا۔ اس مطالعہ کی رہنمائی کرنے والےسائنسداں والٹر لونگو (Valter Longo) نے ڈیلی میل کو بتا یا کہ ایسا معلوم پڑتا تھا کہ فاسٹنگ کی وجہ سے کینسرپھیلا نے والے سلس خود کشی کررہے تھے:

"The cell is, in fact, committing cellular suicide,"


رپورٹ کے اقتباسات کچھ اس طرح تھے:

In experiments on mice, they found tumour cells responded differently to the stress of fasting compared to normal cells. Instead of entering a dormant state similar to hibernation, the cells kept growing and dividing, in the end destroying themselves, they said.


"The cell is, in fact, committing cellular suicide," lead study author Valter Longo was quoted as saying by the Daily Mail. "What we are seeing is that the cancer cell tries to compensate for the lack of all these things missing in the blood after fasting. It may be trying to replace them, but it cannot."


اس رپورٹ کو پڑھ کر مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آگئی:
" اے ایمان والوتم پرروزے رکھنا فرض کیا گیا ہےجس طرح تم پرپہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیارکرو۔ گنتی کے چند ہی دن ہیں لیکن تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں گنتی کو پورا کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں اورنہ رکھیں تو وہ فدیہ دیں اور ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلا نا ہے اورجو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے تو یہ اسی کے لئے بہتر ہے لیکن تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تم روزہ رکھو ، اگر تم علم رکھتے ہو۔" ( 2: 183-184)
' تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ تم روزہ رکھو ، اگر تم علم رکھتے ہو۔' اس جملے میں فاسٹنگ کو نالج سے جوڑ دیا گیا ہے۔ یعنی اہل علم زیادہ بہترجانتے ہیں کہ روزے سے کیا کیا فوائد ہیں۔
اسلامی طریقے میں جو فوائد ہیں اس سے متاثر ہو کربے پناہ لوگ اسلام کی آغوش میں پناہ لے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ  پوری دنیا میں اسلام  بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ اہل علم کو جب قرآن کے صوم کا پتہ چلتا ہے تو وہ اس کے فوائد سائنسی طورپرڈسکور کرلیتے ہیں پھراس کے بعد اسلام میں داخل ہونا ان کے لئے ایک فطری امر بن جاتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام اپنا محافظ آپ ہے۔ اگر مسلمان دعوہ ورک چھوڑ بھی دیں تب بھی وہ اسلام کو پھیلنے سے روک نہیں سکتے۔ اسلام  پھیلتا رہے گا کیونکہ قرآن اپنا کام جاری رکھے گا۔ اسی بات کا اظہار قرآن کی اس آیت میں کیا گیا ہے:
سَنُرِيهِمْ آيَاتِنَا فِي الْآفَاقِ وَفِي أَنفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ الْحَقُّ أَوَلَمْ يَكْفِ بِرَبِّكَ أَنَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق عالم میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کی اپنی ذات میں بھی یہاں تک کہ ان پر کھل جائے کہ حق یہی ہے۔

جمعرات، 12 جون، 2014

There will be no wise among you

تمہارے درمیان کوئی دانشمند نہیں بچے گا

محمد آصف ریاض
ہریانہ کے میوات علاقے میں 8 جون 2014 کو ڈمفراورموٹرسائکل کے درمیان تصادم میں ایک 22 سالہ نوجوان کی موت ہوگئی۔ مرنے والا نوجوان چونکہ ہندو تھا اس لئے کچھ شر پسندوں نے اسے فرقہ پرستی کا رنگ دے دیا اور پورے علاقہ میں ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ اس ہنگامہ آرائی اورلوٹ مارمیں تقریبا 15 لوگ زخمی ہوگئے۔ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئےحکومت نے پورے علاقہ میں کر فیو نافذ کردیا۔
اس معاملہ کی تحقیق کے لئےعام آدمی پارٹی کے لیڈر یوگندر یادو 9 جون 2014 کو ہریانہ  پہنچے۔ انھوں نے زخمی ڈرا ئیور سے ایمس میں ملاقات کی اورمرنے والے نوجوان کی فیملی سے ملاقات کے لئے وہ اس کے گھر ' تا ڑو' گئے۔ تاڑو میں مہلوک کے گھروالوں سے جب وہ مل چکے تو بیس پچیس لوگوں نے انھیں ایک طرف بلا یا اورانھیں صورت حال سے واقف کرا نا شروع کردیا۔
اسی درمیان وہاں ایک رپورٹرپہنچ گیا ۔ وہ لوگوں سے ان کی رائے جاننے لگا۔ اس نے اچانک کیمرہ کا رخ مسٹر یادو کی طرف موڑ دیا اوران سے فساد کا سبب پوچھنے لگا۔ مسٹر یا دو نے یہ کہہ کر فساد کا سبب بتا نے سے انکار کردیا کہ ابھی ان کے پاس اسٹوری کا ایک ہی ورژن ہے جب تک انھیں اسٹوری کا دوسرا ورژن نہیں مل جا تا تب تک وہ اس معاملہ پر کچھ بھی نہیں بولیں گے۔ مسٹر یا دو کی اس بات پروہاں موجود لوگ بھڑک اٹھے اورانھوں نے مسٹر یادو کو وہاں سے نکل جا نے کو کہا۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق ان سے کہا گیا کہ تم یہاں سے نکل جائو:

Yogendra Yadav visits Tauru victim’s kin, asked to ‘get out'


مسٹریا دونے بعد میں میڈیا کوبتا یا کہ انھیں بتایا گیا کہ وہاں موجود لوگ بی جے پی اورآرایس ایس کے تھے اوروہ اپنی اسٹوری کے ورژن پر ہماری مہرلگوانا چاہ رہے تھے۔ وہ ہم سے اپنی اسٹوری کی تصدیق چاہ رہے تھے۔ اب جبکہ ان کی خواہش پوری نہیں ہوئی تو وہ بھڑک اٹھے اور انھوں نے ہمیں وہاں سے نکل جانے کو کہا ۔


"After I reached his place, a TV reporter came to interview the people already here. I was later informed they are local RSS people. These pro-RSS and BJP people gave a one-sided version of the entire sequence of events. The reporter then asked me to give a byte, but I refused, saying I will not comment till the time I have met enough people to know what exactly happened," he added.

قیا دت کا کام بہت ہی نازک کام ہوتا ہے۔ قائد اگرہوشیارہو تو وہ اپنی قوم کو ہرقسم کی سازش سے بچالے گا اوراگرنادان ہوتوسازش کا شکارہوکرخود بھی رسوا ہوگا اورقوم کو بھی رسوا کرے گا۔ اگرکسی قوم کا لیڈرشہبازہوتو وہ اسے اونچائی کی طرف لے جائے گا اوراگرکوا ہو تو وہ اسے تباہی کی طرف لے جائے گا۔
مہا تما گاندھی کے بارے میں کلدیپ نیئر نے اپنی سوانح حیات Beyond the lines   میں لکھا ہے کہ انھوں نے جدو جہد آزادی میں ہتھیار اٹھانے سے ہندوستانیوں کو اس لئے منع کردیا تھا کیوں کہ ان کی دوررس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اگرایک بارہندوستانیوں نے ہتھیاراٹھا لیا تو وہ انگریزوں کو بھگانے کے بعد اس ہتھیارکا استعمال ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لئے کریں گے۔
Gandhi knew his country well.  He said that if Indians were to take up guns, to kill the British, given India’s great religious ethic divisions, they would continue using the same guns to kill each other long after British had left. He said he did not want India’s freedom if it meant Indians would be free to slaughter each other.
Beyond the lines – page 57
یہ تھی جدید ہندوستان میں مہاتما گاندھی کی دوراندیش لیڈرشپ۔ گاندھی جی نے دیکھ لیا تھا کہ اگر ہندوستانیوں نے انگریزوں کے خلاف ہتھیار اٹھا لیا تو کیا ہوگا اور اسی لئے انھوں نے اپنی قوم کو ہتھیار اٹھانے سے منع کردیا۔  
جدید ہندوستان میں دوعظیم مسلم قائدین پیدا ہوئے۔ پہلے کا نام سرسید احمد خان تھا اوردوسرے کا نام مولانا ابوالکلام آزاد تھا۔ دونوں ہی بہت ذہین لیڈرتھے۔ ان دونوں لیڈران کا سانحہ یہ تھا کہ دونوں کو بگڑی ہوئی  قوم نے مسترد کردیا اور ان دونوں شہبازوں کے مقابلہ میں قوم نے کووں کو اپنا لیڈر بنایا اور ان کوئوں نے پوری قوم کو تباہی کی کھائی میں گرا دیا۔
کلدیپ نیئر نے اپنی سوانح Beyond the lines – میں لکھا ہے کہ بر صغیر کی تقسیم کا سب سے بڑا نقصان مسلمانوں کو ہوا۔ کیونکہ وہ تین ملکوں پاکستان بنگلہ دیش اور ہندوستان میں منقسم ہوکر رہ گئے۔ اگر وہ ایک جگہ ہوتے تو کوئی بھی طاقت انھیں نظر انداز نہیں کر سکتی تھی۔
ہندوستانی مسلمانوں کی تباہی کو دیکھئے تو یروشلم کی تباہی کی یاد آجاتی ہے۔ بائبل میں ہے کہ "خدا تم کو برباد کردے گا۔ تمہارے لوگوں کو جلا وطنی کی مار جھیلنی ہوگی ، تم رسوا اور ذلیل کئے جائو گے اور تمہارے نوجوان قتل کئے جائیں گے خدا تم پر بیوقوفی کو انڈیل دے گا اور تمہارے درمیان کوئی دانا آدمی زندہ نہیں ہوگا۔"
God will destroy you. He will pour upon you the spirit of foolishness. There will be no wise among you.
بائبل میں یروشلم کی تباہی کا جو ذکر مذکور ہے وہ در اصل ہندوستانی مسلمانوں کی تباہی اور نادانی کا ایک تمثیلی بیان ہے۔ 

جمعہ، 6 جون، 2014

فرعون نہیں رہا لیکن فرعونیت باقی ہے

محمد آصف ریاض
فرعون بڑا ظالم بادشاہ تھا۔ اس نے یہود کواپنا غلام بنا لیا تھا۔ وہ یہود کے لڑکوں کوقتل کرادیتا تھا اوران کی لڑکیوں کواپنی غلامی میں رکھتا تھا۔ اس کی قوم قبطی، یہود کے خلاف ہر روزایک نیا ظلم ایجاد کرتی تھی اورفرعون ان کی پشت پرکھڑا رہتا تھا۔ حضرت موسیٰ نے جب فرعون کوخدا سے ڈرایا تووہ بھڑک اٹھا۔ وہ اپنی قوم سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
"مجھے چھوڑو، کہ میں موسیٰ کو مار ڈالوں۔ اوروہ اپنے رب کو پکارے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ یہ کہیں تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا ملک میں کوئی بہت بڑا فساد برپا نہ کر دے۔"
فرعون کا کوئی دین نہ تھا۔ وہ اپنے آپ کو انا ربکم الاعلیٰ کہا کرتا تھا۔ یعنی کہ میں ہی تہارا سب سے بڑا رب ہوں۔ اسی کے ساتھ وہ اپنی قوم کے اکابرین کو بھی خدا کے مقام پررکھتا تھا تا کہ وہ اپنےاکابرین کے نام پراپنی قوم پرحکومت کرسکے:
ہردورمیں خدا پرستوں کے خلا ف آ با پرستوں نے وہی رائے پیش کی ہے جو مو سیٰ کے سلسلے میں فرعون نے پیش کی تھی۔ یعنی مجھے چھوڑو کہ میں اسے مار ڈالوں کہیں وہ تمہارا دین نہ بدل ڈالے یا زمین پر فساد نہ برپا کردے۔
اپنے ملک میں  ہندو شدت پسندوں کی بات سنئے اور پڑھئے تو یہاں بھی آپ کو فرعون کے بیان کی باز گشت سنائی دے گی۔ یہاں میں مثال کے طور پر ہریانہ واچ ویب سائٹ سے ایک اقتباس نقل کر رہا ہوں۔
" ہریانہ کا مطلب ہوتا ہےخدا کا گھر۔ 'ہری' سنسکرت کا لفظ ہے، ہری کے معنی خدا ہوتا ہے اور' یا نا ' کا مطلب گھر۔ـــ  ہندوئوں کو چاہئے کہ وہ ذات پات سے اوپراٹھ کرہریانہ کے تحفظ کے لئے متحد ہو جائیں۔ ہماری سرزمین، پماری وراثت، اور ہماری عورتیں سب مسلمانوں کے نرغے میں ہیں۔"
 The name Haryana means "The Abode of God" from the Sanskrit words: Hari (God) and Ayana (Home)
Hindus must unite – across caste and gotra lines – and fight together to protect Haryana, our land, our heritage, our women – all of whom are rapidly falling prey to the Muslims.
Haryana Watch

آدمی کو جب زمین پرطاقت ملتی ہے تووہ ہرچیز کواپنی دسترس میں دیکھنا چاہتا ہے یہاں تک کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا بھی وہی ہوجس کووہ خدا بنائے۔ وہ بتوں کو تراش کرانھیں خدا بنا تا ہے اورلوگوں کو مجبورکرتا ہے کہ وہ اس کی پرستش کریں۔ وہ اپنے اکابرین کی پوجا کرتا ہےاوران کی مورتیاں تراشتا ہے اور پتھرکی ان مورتیوں کے نام پر وہ زندہ انسانوں کے قتل سے بھی باز نہیں آتا۔ کل کے سرکشوں کا طریقہ بھی یہی تھا اورآج کے سرکشوں طریقہ بھی یہی ہے۔ آدمی اس لئے سرکشی کرتا ہے کیوں کہ وہ صرف اپنی طاقت کو جانتا ہے جس دن اسے خدا کی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا اس دن وہ اپنے آپ کواسی طرح ایک گھلا ہوا انسان پائے گا جس طرح نمک پانی سے گھل جاتا ہے۔

بدھ، 4 جون، 2014

تجربہ اور تجربے کا اظہار

تجربہ اور تجربے کا اظہار

محمد آصف ریاض
ششی تھرورسینئرکانگریسی لیڈر ہیں۔ انھیں سیاست کا گہرا تجربہ ہے۔ انھوں نے یو این میں سکریٹری جنرل کے لئے 2007 میں کوفی عنان کے خلاف قسمت آزمائی کی  تھی اور ہار گئے تھے۔ اس کے بعد سے اب تک وہ ملکی سیاست میں فعال کردارادا کر رہے ہیں۔ وہ یوپی اے حکومت میں وزارت خارجہ کے تحت وزیرمملکت Minister of State کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔
2014 میں جب دہلی میں مودی کی سرکاربنی تو بہت سارے لیڈران کو وزیر مملکت بنا یا گیا۔ اس موقع پر ششی تھرور نے وزرائے مملکت کو صلاح دیتے ہوئے ایک ٹیوٹ کیا۔ انھوں نے لکھا :
" وزیرمملکت بننا ایسا ہے جیسے کوئی شخص قبرستان میں کھڑا ہو۔ اس کے نیچے بہت سے لوگ ہوتے ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں ہوتا۔"

Being MoS is like standing in a cemetery — there's a lot of people under you but no one is listening!,"


26, 2014 Times of India

وزیرمملکت بننا ایسا ہے جیسے کوئی شخص قبرستان میں کھڑا ہو۔ اس کے نیچے بلا شبہ بہت سے لوگ ہوں گے لیکن کوئی سسنے والا نہیں ہوگا۔ یہ ایک ذاتی تجربہ کی بات ہے۔ اگر آدمی کسی خاص تجربے سے گزرے تو اس تجربہ کے اظہار کے لئے اسے وہ الفاظ مل جائیں گے جو حسب حا ل ہوں۔ یعنی آدمی کا تجربہ جتنا اسٹرانگ ہوگا اس کا اظہار بھی اتنا ہی اسٹرانگ ہوگا۔
یہ ایک تجربہ کی بات ہے۔ آدمی کا تجربہ جتنا گہرا ہوگا اس لحاظ سے اس کا اظہار بھی اتنا ہی گہرا اور واضح ہوگا۔ یہ بات دنیوی تجربات کےلئے جتنی صحیح ہے،اتنی ہی صحیح اخروی تجربات کے بارے میں بھی ہے۔
اگرآدمی پر خدا کی معرفت کا تجربہ گزرے تو وہ اپنے تجر بات کے اظہار کے لئے بھی ویسے ہی الفاظ پا لے گا جس طرح کے الفاظ وہ دنیوی تجربات کے اظہار کے لئے پا لیتا ہے۔ یہاں میں آپ کو چند مثالیں دوں گا۔
حضرت مسیح علیہ السلام پر عجز کا تجربہ گزرا ۔ جب آپ نے اپنے آپ کو دشمنوں کے نرغے میں پا یا تو پکار اٹھے؛ خدایا کیا تو نے مجھے چھوڑ دیا؟ انجیل میں اس کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
My God My God have you forsaken me?
اسی طرح جب حضرت ایوب پرعجز کا تجربہ گزرا اور آپ کا سب کچھ تباہ ہوگیا، یہاں تک کہ آپ کی صحت بھی ختم ہوگئی اور  بیماری نے آپ کے جسم کو کھانا شروع کردیا تو آپ پکار اٹھے:
"ننگا ہی میں اپنی ماں کی پیٹ سے آیا تھا اور ننگا ہی میں جائوں گا۔ خدا وند نے دیا تھا خدا وند نے لے لیا، خدا وند کا نام مبارک ہو۔"
"Naked I came from my mother's womb; naked I will return there. The LORD has given; the LORD has taken; bless the LORD's name."
اسی طرح حضرت حضرت زکریا کا ذکر قرآن میں بیان ہوا ہے۔ جب آپ پر ضعف اور بڑھا پے کا تجربہ گزرا اور جب آپ کو اپنی وراثت کی طرف سے اندیشہ ہوا تو آپ نے نہایت رقت انگیز انداز میں اپنے خدا کو پکارا۔ قرآن میں اس کا بیان اس طرح ہوا ہے:
" یہ ہے اس رحمت کا ذکرجو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی۔ جبکہ اس نے اپنے رب کو چھپی آواز سے پکارا۔ زکریا نے کہا، اے میرے رب میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں۔ اور سر میں بالوں کی سفیدی پھیل گئی ہے۔ اور اے میرے رب تجھ  سے مانگ کر میں کبھی محروم نہیں رہا۔ اور میں اپنے بعد اپنے رشتہ داروں کی طرف سے اندیشہ رکھتا ہوں ۔ اور میری بیوی بانجھ ہے، پس مجھکو اپنے پاس سے ایک وارث دے۔ جو میری جگہ لے اور آل یعقوب کی بھی۔ اور اے میرے رب اس کو اپنا پسندیدہ بنا۔ سورہ مریم 1- 6

یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ آدمی اگر تجربات سے گزرے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان تجربات کے اظہار کے لئے اس کے پاس الفاظ کم پڑ جائیں۔ آدمی کے پاس آپشن ہے کہ وہ بغیر تجربہ کے بھی زندگی گزارے۔ لیکن تجربہ کار اور نا تجربہ کار انسان کے درمیان وہی فرق ہے جو زندہ اور مردہ انسان کے درمیان ہوتا ہے۔