اپنے دانہ کوپودا بنا ئیں اورپوداکوتناوردرخت
محمد آصف ریاض
جون 2013 کی شام ایک نوجوان ملاقات کے لئےآئے۔ وہ پٹنہ
کےرہنے والے ہیں اورنوئیڈا میں گزشتہ پندرہ سالوں سے رہ رہے ہیں۔ ان کی عمرتیس سال
سے زیادہ ہوچکی ہے لیکن اب تک وہ کوئی قابل قدرکارنامہ انجام نہیں دے سکے ہیں۔
بات چیت کے دوران انھوں نے اپنے گھروالوں کی شکایت کی۔
ان کاکہنا تھا کہ گھروالوں نے ان کی مدد نہیں کی اس لئے وہ ناکام ہوگئے۔ میں انھیں
پہلے سے جانتا ہوں ۔ میں نے انھیں بتایا کہ آپ کے دوسرے بھائیوں کی بھی مدد نہیں
کی گئی تھی لیکن وہ توکامیاب ہوگئے۔ میری اس بات پروہ سٹپٹا کررہ گئے۔
’آدمی کو چاہئے
کہ وہ کسی معاملہ میں کوئی عذرپیش نہ کرے ہرچند کہ اس کے پاس بیان کرنےکےلئےبہترین
عذرہو‘
Do not use any
excuse even if you have a good one
میں نےانھیں بتایاکہ اس دنیا میں مدد اسی کوملتی ہےجویہ
ثابت کرسکےکہ اگراس کی مدد کی گئی تووہ مدد کرنے والے کومزید اضافہ کے ساتھ لوٹائے
گا۔ میں نے انھیں بتایاکہ آپ اپنے عمل سے اپنی افادیت ثابت نہ کرسکے بلکہ الٹا آپ
نے لوگوں پریہ تاثرچھوڑاکہ اگرآپ کی مدد کی گئی تومدد کرنے والے کوشرمندگی اٹھانی
پڑے گی۔
کسان اور دانہ
کسان دانے کی مدد کرتا ہے۔ لیکن کب؟ جبکہ دانا اپنے آپ
کوپوداکی شکل میں نمودارکرنےاورکسان پریہ تاثرچھوڑنے میں کامیاب ہوجائے کہ اگراس
کی مدد کی گئی تووہ کسان کے لئے پھل لائے گا، اسے سایہ دے گا، اس کے لئے آکسیجن
تیارکرے گا اوراسے زندگی کاسامان فراہم کرائے گا۔
پودے کی اس یقین دہانی کے ساتھ ہی کسان ایکٹیوہوجاتا ہے۔
وہ اس کے لئے پانی کااہتمام کرتاہے۔اس کی صفائی کااہتمام
کرتاہے، اسے کوئی
بیماری نہ لگ جا ئے اس کے لئے دواﺅں کا انتظام کرتا ہے۔ وہ اس کی نگرانی کرتا ہے
اوراسے درخت بننے میں ہرممکن مدد فراہم کرتاہے۔ وہ اس پرجان اور مال لگاتاہے۔ وہ
اس کی پر ورش کرتا ہے۔
لیکن یہ مدد پودے کواس وقت ملتی ہےجبکہ پودااپنے کسان
پراپنی افادیت کوثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے اورجب کوئی پودا اپنی افادیت ثابت
نہیں کر پاتاتواس پودا کے متعلق کسان کاردعمل بالکل دوسراہوتا ہے۔ یعنی کسان اسے
اکھاڑکردور پھینک دیتا ہے۔
کسان بیج لگاتاہے اوروہ بیج پودے کی شکل میں نمودارہوتا
ہے تواس کی قدرکی جاتی ہے اوراگروہ بیج پودا کی شکل میں نمودارنہ ہوتوکسان پوری
کھیتی پرہل چلا دیتا ہے اورپھرنیا بیج لگاتاہے۔
یہی حال کسی انسان کا
ہے۔ اگرانسان دانےکی طرح اپنی افادیت ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے توضروراس کی قدرکی
جائے گی اوراگروہ ناکام ہوجائے توبعید نہیں کہ ناکارہ دانے کی طرح اس پربھی ہل چلا
دیاجائے۔
کسان کی مدد کے حصول کے لئے دانے کواپنی افادیت ثابت
کرنی پڑتی ہے، اسی طرح کسی کی مدد پانے کے لئے انسان کواپنی افادیت کا ثبوت دینا
پڑتا ہے۔ کسی سے مدد کے حصول کااس دنیا میں یہی عملی تقاضاہے جولوگ اس عملی تقاضے
کوپورانہ کرسکیں ان کاانجام اس دانے کی طرح ہوگاجواپنے آپ کوپودا نہیں بناپاتا اوراکھا
ڑکر پھینک دیاجاتاہے۔ ایسے لوگوں کونہ گھرسے مدد ملتی ہے اورنہ باہرسے۔
یادرکھئے،جس طرح ناکارہ دانے کی مدد نہیں کی جاتی اسی
طرح ناکارہ لوگوں کی بھی مدد نہیں کی جاتی۔ مدد تو صرف اسی کی ہوتی ہے جو اپنی مدد
آپ کرتے ہیں، جو اپنے دانہ کو پودا بناتے ہیں اور پودا کو تناوردرخت۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں