ہندوستانی مسلمان بہت بڑارسک مول لے رہے ہیں
محمد آصف ریاض
ہندوستانی
مسلمانوں کوحکومت اورپولیس انتظامیہ سے یہ شکایت ہے کہ وہ ان کے بچوں کوپکڑکرجیلوں
میں بند کردیتی ہیں۔ سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی
13.4 فیصد ہے لیکن جیلوں میں ان کی تعداد تناسب سے زیادہ ہے۔
مڈ ایسٹ نامی
ویب سائٹ پرشائع ایک رپورٹ کے مطابق 102,652 لاکھ مسلمان ملک کی مختلف جیلوں میں قید
ہیں۔ مثلاًمہاراشٹرمیں ان کی آبادی 10.6 فیصد ہے لیکن جیلوں میں ان کی آبادی 32.4 فیصد
ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کی کل آبادی 9.06 فیصد ہے لیکن جیل کی آبادی میں ان کا حصہ
25 فیصد ہے۔ آسام میں مسلمان 30.9 فیصد ہیں تاہم جیل کی آبادی میں ان کا حصہ 28.1 فیصد ہے۔ کرناٹک میں مسلمانوں کی تعداد 12.23 فیصد
ہے اوریہاں کی جیلوں میں ان کی حصہ داری 17.5 فیصد ہے۔ اتر پردیش بہارمغربی بنگال اورآندھرپردیش
نے سچرکمیٹی کوجیلوں میں قید مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں اعدادو شمار فراہم نہیں
کرایا تھا۔
دارالحکومت
دہلی سے شائع ہونے والے ایک اردو اخبار"سیاسی تقدیر"میں 'خبروں کی خبر'کے
تحت ایک کالم شائع ہوتاہے اس میں کالم نگارنے اپنے ایک مضمون کی سرخی اس طرح لگا ئی
تھی: ملائم جی آپ کی جیلوں میں مسلمان اپنی آبادی سے زیادہ کیوں ہیں؟
مسلمان اکثریہ
کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ پولیس انتظامیہ اورحکومت ان کے ساتھ سازش کررہی ہے اوران
کے بچوں کوجیل میں بند کررہی ہے۔ لیکن کیا ان کی یہ سازشی تھیوری درست ہے؟
میں اپنی تعلیم
اورجاب کے سلسلے میں ملک کی مختلف ریاستوں میں رہ چکا ہوں۔ مثلا بہار، یوپی، راجستھان،
دہلی وغیرہ۔ یہاں میں مسلم علاقوں میں رہتاتھا اوراکثرمسلمانوں کوآپس میں جھگڑتے ہوئے
دیکھتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کاخون بہا تے تھے۔ اورسب جھگڑتے تھے، نام نہاد پڑھے لکھے
بھی اورجاہل بھی، بے ریش بھی اورباریش بھی۔ ان کی بہت سی لڑائیاں ہم نے مسجدوں میں
دیکھی ہیں۔
ان کے وہ لوگ
بھی لڑتے تھے جوکالج اوراسکول کے تعلیم یافتہ تھے اوروہ لوگ بھی لڑتے تھے جو بڑے بڑے
مدارس سے فارغ تھے۔ ان کی لڑائیوں سے تنگ آکرکوئی شخص پولیس کوفون کردیتا تھا اورپولیس
وقت پرپہنچ کرلڑائی کو قتل تک پہنچنے سے پہلے روک دیتی تھی اورفریقین کوجیلوں میں بند
کر دیتی تھی۔ اس طرح ملک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد جیلوں میں بند ہوگئی۔ بلا شبہ ان
میں کچھ بے گناہ بھی ضرورہوں گے لیکن ایسا نہیں کہ سب پولیس اورحکومتی سازش کے شکارہیں۔
مسلمانوں کی
سماجی اوراخلاقی گراوٹ کاحال یہ ہے کہ اگران میں دولڑجائیں اورآپ ان کے درمیان صلح
کراناچاہیں توآپ ناکام ہوجائیں گے۔ کیوں کہ وہ کسی کی بات سننے کے لئے تیارنہیں ہوتے۔
اگرآپ ان کے درمیان صلح کرانا چاہیں اورآپ کو یہ قدرت بھی حاصل ہو کہ آپ سوسال پرانے
بوڑھوں کوقبرسے نکال لائیں اوران سے صلح کرائیں تب بھی آپ کامیاب نہیں ہوسکتے کیوںکہ
مسلمان قبروں سے نکل کرآئے ہوئے ان بوڑھوں کوبھی ٹھیک اسی طرح مسترد کردیں گے جس طرح
یہود اپنے پیغمبرکے فیصلوں کومسترد کردیا کرتے تھے۔
لمحہ فکریہ
مسلم اہل علم
سازشی تھیوری کوآگے بڑھا کراپنی آئندہ نسلوں کوپوری طرح تباہ کر نے کارسک مول لے رہے
ہیں۔ حکومت اورپولیسیا سازش کی تھیوری صرف اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب کہ ہم اپنی
آئندہ نسلوں کوبگاڑنے کی قیمت چکا دیں۔ پولیسیا سازش پرتوجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ
ہم نے اپنے بچوں کی طرف سے توجہ ہٹا لی ہے اوریہی غلطی ہمیں سوسال پیچھے پہنچادے گی۔
ہمیں یہ جاننا
چاہئے کہ ہماری حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ہمارے سارے بچوں کو جیل میں
بند کردے ۔ حکومت کے پاس نہ اتنی جیلیں ہیں اورنہ اتنے وسائل کہ جیل کے اندران کی نگرانی
کی جا سکے اورانھیں کھلانے پلا نے کا انتظام کیاجاسکے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ مسلمان سرکارکا
نہیں کھاتے، وہ اپنی کما ئی کاکھاتے ہیں۔ اورجیل میں بند کرنے کی صورت میں حکومت پریہ
فرض ہوجائے گا کہ وہ اٹھارہ کروڑمسلمانوں کوبٹھا کرکھلانے کا رسک لے۔ اورخوش قسمتی
سے حکومت اس کے لئے کوئی خفیہ تیاری نہیں کررہی ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کہیں ایسا
نہیں ہواہے کہ کوئی حکومت پوری قوم کوجیل میں بند کرکے خود کومحفوظ کرلے۔ کہیں ایسا
نہیں ہواہے۔ یہ کام توفرعون بھی نہیں کرسکا۔
حکومت اورانتظامیہ
پرالزام دھرنے سے پہلے لازم ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف دھیان دیں۔ وہ
انھیں ایجو کیٹ کریں اورانفرادی طورپرانھیں ایک بہترانسان بنانے کی کوشش کریں۔ مسلمان
ابھی اجتماعی طورپرکچھ کرنے کی پوزیشن میں نہی ہیں کیونکہ اچھی جماعت کے لئے اچھے افراد
درکارہوتے ہیں جوابھی مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں۔
مسلمانوں کا
حال یہ ہے کہ ان میں کا ہرایک لالواورنتیش بنا ہوا ہے ۔ میزائیل مین اے پی جےعبد الکلام
نے اپنی کتاب ٹرننگ
(Turning point) پوائنٹ میں لکھا ہے کہ جب وہ بہارکے
دورے پرتھے توایک مرتبہ لالوپرساد اورنتیش کماردونوں اسٹیشن پران کا استقبال کرنے پہنچے
لیکن دونوں دوطرف دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے دونوں لیڈران کوملا یاتھا۔
لڑنا بھڑنا
ایک فطری عمل
{natural phenomena }ہے لیکن اسی کے ساتھ صلح و صفائی بھی ایک فطری امر ہے۔ لیکن مسلمانوں کا
معاملہ یہ ہے کہ مسلمان ایک فطری امرکو جانتے ہیں اوردوسرے فطری امرکو نہیں جانتے۔
میں یہ باتیں
کسی جاہ ومنصب کے حصول کے لئے نہیں لکھ رہا ہوں۔ میں یہ باتیں صرف اس لئے تحریرکررہا
ہوں کیوں کہ مجھے اسلام نے یہی سکھا یا ہے۔ مجھے سیدھی بات کہنے کے لئے کہا گیا ہے۔
قرآن میں ہے:
اے ایمان والو!
اللہ تعالی سے ڈرواورسیدھی سچی بات کیا کروتاکہ اللہ تعالی تمہارے کام سنواردے اورتمہارے
گناہ معاف فرمادے،اورجوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول کی تابعداری کرے گااس نے بڑی مراد
پالی۔( الاحزاب : -(70-71(
ہمیں یہ جانناچاہئے
کہ اس دنیا میں کوئی حکومت دائمی نہیں ہے۔ یہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ یہاں خدا
کا وہ قانون نافذ ہے جس کے تحت وہ انسانوں کے درمیان وقت کوبدلتارہتا ہے۔ آج کوئی اورحکومت
میں ہے توکل کوئی اورحکومت میں ہوگا۔ یہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، چنانچہ کسی حکومت
کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ دائمی طورپرکسی قوم کواپنا نشانہ بنا سکے۔ قرآن کاارشاد
ہے: "ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں" (3: 14(
مسلمانوں کوچاہئے
کہ وہ سازشی تھیوری کوچھوڑکراس بدلتے ہوئے ایام کی تیاری میں لگ جائیں جوخدا کی طرف
سے کسی قوم کے لئے بہترین مواقع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے اندرقائدانہ صلاحیت پیدا
کریں، اورسب سے بڑھ کریہ کہ وہ دینے والی کمیونٹی بن کررہیں۔ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں
اورخود بھی پڑھیں۔ وہ اپنے ہرگھرکولائبریری اورلبوریٹری میں تبدیل کردیں۔ وہ خدا کی
کتاب قرآن سے زندگی کی روشنی، امید ،اور طاقت حاصل کریں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں