بدھ، 24 اپریل، 2013

A living spirit



زندہ اسپرٹ


محمد آصف ریاض 

زندہ قومیں زندہ اسپرٹ کےساتھ  جیتی ہیں۔ وہ اس احساس کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں کہ ان کے پاس دنیا کودینےکےلئے بہت کچھ ہے۔ وہ اپنی امنگوں، امیدوں اورحوصلوں کے ذریعہ زمین وآسمان پرچھاجاناچاہتی ہیں۔ ان کا طرزفکرفاتح کا طرزفکرہوتا ہے۔ وہ سوچتی ہیں کہ اگرکوئی کام ہرآدمی کرسکتا ہے تووہ کیوں نہیں کرسکتے؟ اوراگرکوئی نہیں کرسکتا تووہ اس کام کوضرورکریں گے۔
اس کے برعکس مردہ قوموں کاحال یہ ہے کہ وہ یہ سوچتی ہیں کہ اگرکوئی کام سب کررہا ہے توسب کرے، ہم کیوں کریں؟ اور اگرکوئی نہیں کرسکتا توبھلا ہم کس طرح کرسکتے ہیں؟
میزائیل مین اے پی جے عبد الکلام نے اپنی کتاب اگنائیٹیڈ مائنڈ میں معروف سائنسداں پروفیسرسی وی رمن
 (7 November 1888 – 21 November 1970) کی تقریرکا ایک اقتباس نقل کیا ہے وہ اس طرح ہے:

"میں یہاں اپنے سامنے موجود  نوجوان مردوخواتین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنا حوصلہ اوراپنی امیدیں برقراررکھیں، انھیں ٹوٹنے نہ دیں۔ آپ کے سامنے جوعظیم کام ہے وہ اسی وقت پائہ تکمیل کوپہنچ سکتا ہے جب کہ آپ عزم اورحوصلہ سے کام لیں۔ میں یہ بات بغیرکسی شبہ اورتضاد کے کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستانیوں کےاندربھی وہی اہلیت موجود ہےجوکسی نیوٹونک {یعنی جرمن نسل} یا نوریڈیک {شمالی یورپین ممالک} یااینگلوسیکسن مائنڈ کی ہوتی ہے۔ ہمارے پاس شاید عزم اورحوصلے کی کمی ہے۔ ہمیں اس ڈرائیونگ فورس کی ضرورت ہے جوکسی انسان کواس مقام پرپہنچاتی ہے جہاں کہ وہ پہنچنا چاہتا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوکہ ہم نےاپنےاندراحساس کمتری پیدا کرلی ہے۔ میرے خیال میں ہندوستانیوں کےسامنےسب سے بڑاچیلنج شکت خوردہ اسپرٹ کو تباہ کرنے کا ہے۔ ہمیں فاتح کی اسپرٹ درکارہے۔ ہمیں وہ اسپرٹ درکارہے جو ہمیں ہمارامقام دلاسکے، جوہمیں سورج کے قریب لے جائے۔ ہمیں وہ اسپرٹ درکارہے جو ہمیں یہ احساس دے کہ ہم ایک پرفخرتہذیب وتمدن کے وارث ہیں اوریہ کہ  ہمیں ہمارامقام ملنا چاہئے۔ اگرہمارے اندروہ اسپرٹ پیدا ہوجائے توکوئی بھی چیزایسی نہیں جو ہمیں اپنے مقام پرپہنچنےسے روک دے۔"

I would like to tell the young men and women before me not to lose hope and courage. Success can only come to you by courageous devotion to the task lying in front of you. I can assert without fear of contradiction that the quality of Indian man is equal to the quality of any Teutonic, Nordic or Anglo Saxon mind. What we lack is perhaps courage, what we lack is perhaps driving force, which takes one anywhere. We have, I think, developed an inferiority complex. I think what is needed in India to day is destruction of that defeatist spirit.  We need a spirit of victory, a spirit that will carry us to our rightful palce under the Sun, a spirit which can recongnize that , we as inheritors of proud civilizaton, are entitled to our rightful place on the planet. If that indimitable spirit were to arise nothing can hold us from achiving our rightful destiny.
Ignited mind, by APJ Abdul Kalam, page 48.

میں سمجھتا ہوں کہ یہی بات توسیعی مفہوم میں ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بھی کہی جا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان شکست خورہ ذہنیت سےنکلیں۔ وہ احساس کمتری  کو چھوڑیں ۔ وہ یہ نہ سوچیں کہ جو کام کوئی نہیں کرسکتا تووہ اسے کیسے کرسکتے ہیں؟ وہ یہ سوچیں کہ کوئی کام اگرکوئی نہیں کرسکتا تو وہ اسے ضرور کریں۔

ہندوستان مسلمانوں کو زمین کی روشنی اورلوگوں کے لئے امید کی کرن بن کررہنا ہے۔ انھیں زمین کا نمک بنناہے اوراگرنمک اپنی نمکینی کھوودے تووہ کسی کام کا نہیں ہوتا، اسی طرح اگرمسلمان اپنے اسپرٹ اوراپنی امنگوں کوکھودیں تو وہ کسی کام کے نہیں رہیں گے۔

Indian Muslims are taking great risk


ہندوستانی مسلمان بہت بڑارسک مول لے رہے ہیں

محمد آصف ریاض
ہندوستانی مسلمانوں کوحکومت اورپولیس انتظامیہ سے یہ شکایت ہے کہ وہ ان کے بچوں کوپکڑکرجیلوں میں بند کردیتی ہیں۔ سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 13.4 فیصد ہے لیکن جیلوں میں ان کی تعداد تناسب سے زیادہ ہے۔
مڈ ایسٹ نامی ویب سائٹ پرشائع ایک رپورٹ کے مطابق 102,652 لاکھ مسلمان ملک کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔ مثلاًمہاراشٹرمیں ان کی آبادی 10.6 فیصد ہے لیکن جیلوں میں ان کی آبادی 32.4 فیصد ہے۔ گجرات میں مسلمانوں کی کل آبادی 9.06 فیصد ہے لیکن جیل کی آبادی میں ان کا حصہ 25 فیصد ہے۔ آسام میں مسلمان 30.9 فیصد ہیں تاہم جیل کی آبادی میں ان کا حصہ 28.1 فیصد ہے۔ کرناٹک میں مسلمانوں کی تعداد 12.23 فیصد ہے اوریہاں کی جیلوں میں ان کی حصہ داری 17.5 فیصد ہے۔ اتر پردیش بہارمغربی بنگال اورآندھرپردیش نے سچرکمیٹی کوجیلوں میں قید مسلمانوں کی تعداد کے بارے میں اعدادو شمار فراہم نہیں کرایا تھا۔
دارالحکومت دہلی سے شائع ہونے والے ایک اردو اخبار"سیاسی تقدیر"میں 'خبروں کی خبر'کے تحت ایک کالم شائع ہوتاہے اس میں کالم نگارنے اپنے ایک مضمون کی سرخی اس طرح لگا ئی تھی: ملائم جی آپ کی جیلوں میں مسلمان اپنی آبادی سے زیادہ کیوں ہیں؟
مسلمان اکثریہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ پولیس انتظامیہ اورحکومت ان کے ساتھ سازش کررہی ہے اوران کے بچوں کوجیل میں بند کررہی ہے۔ لیکن کیا ان کی یہ سازشی تھیوری درست ہے؟
میں اپنی تعلیم اورجاب کے سلسلے میں ملک کی مختلف ریاستوں میں رہ چکا ہوں۔ مثلا بہار، یوپی، راجستھان، دہلی وغیرہ۔ یہاں میں مسلم علاقوں میں رہتاتھا اوراکثرمسلمانوں کوآپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھتا تھا۔ وہ ایک دوسرے کاخون بہا تے تھے۔ اورسب جھگڑتے تھے، نام نہاد پڑھے لکھے بھی اورجاہل بھی، بے ریش بھی اورباریش بھی۔ ان کی بہت سی لڑائیاں ہم نے مسجدوں میں دیکھی ہیں۔
ان کے وہ لوگ بھی لڑتے تھے جوکالج اوراسکول کے تعلیم یافتہ تھے اوروہ لوگ بھی لڑتے تھے جو بڑے بڑے مدارس سے فارغ تھے۔ ان کی لڑائیوں سے تنگ آکرکوئی شخص پولیس کوفون کردیتا تھا اورپولیس وقت پرپہنچ کرلڑائی کو قتل تک پہنچنے سے پہلے روک دیتی تھی اورفریقین کوجیلوں میں بند کر دیتی تھی۔ اس طرح ملک کے مسلمانوں کی بڑی تعداد جیلوں میں بند ہوگئی۔ بلا شبہ ان میں کچھ بے گناہ بھی ضرورہوں گے لیکن ایسا نہیں کہ سب پولیس اورحکومتی سازش کے شکارہیں۔
مسلمانوں کی سماجی اوراخلاقی گراوٹ کاحال یہ ہے کہ اگران میں دولڑجائیں اورآپ ان کے درمیان صلح کراناچاہیں توآپ ناکام ہوجائیں گے۔ کیوں کہ وہ کسی کی بات سننے کے لئے تیارنہیں ہوتے۔ اگرآپ ان کے درمیان صلح کرانا چاہیں اورآپ کو یہ قدرت بھی حاصل ہو کہ آپ سوسال پرانے بوڑھوں کوقبرسے نکال لائیں اوران سے صلح کرائیں تب بھی آپ کامیاب نہیں ہوسکتے کیوںکہ مسلمان قبروں سے نکل کرآئے ہوئے ان بوڑھوں کوبھی ٹھیک اسی طرح مسترد کردیں گے جس طرح یہود اپنے پیغمبرکے فیصلوں کومسترد کردیا کرتے تھے۔
لمحہ فکریہ
مسلم اہل علم سازشی تھیوری کوآگے بڑھا کراپنی آئندہ نسلوں کوپوری طرح تباہ کر نے کارسک مول لے رہے ہیں۔ حکومت اورپولیسیا سازش کی تھیوری صرف اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب کہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کوبگاڑنے کی قیمت چکا دیں۔ پولیسیا سازش پرتوجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کی طرف سے توجہ ہٹا لی ہے اوریہی غلطی ہمیں سوسال پیچھے پہنچادے گی۔
ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ ہماری حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ وہ ہمارے سارے بچوں کو جیل میں بند کردے ۔ حکومت کے پاس نہ اتنی جیلیں ہیں اورنہ اتنے وسائل کہ جیل کے اندران کی نگرانی کی جا سکے اورانھیں کھلانے پلا نے کا انتظام کیاجاسکے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ مسلمان سرکارکا نہیں کھاتے، وہ اپنی کما ئی کاکھاتے ہیں۔ اورجیل میں بند کرنے کی صورت میں حکومت پریہ فرض ہوجائے گا کہ وہ اٹھارہ کروڑمسلمانوں کوبٹھا کرکھلانے کا رسک لے۔ اورخوش قسمتی سے حکومت اس کے لئے کوئی خفیہ تیاری نہیں کررہی ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں کہیں ایسا نہیں ہواہے کہ کوئی حکومت پوری قوم کوجیل میں بند کرکے خود کومحفوظ کرلے۔ کہیں ایسا نہیں ہواہے۔ یہ کام توفرعون بھی نہیں کرسکا۔
حکومت اورانتظامیہ پرالزام دھرنے سے پہلے لازم ہے کہ مسلمان اپنے بچوں کی اصلاح کی طرف دھیان دیں۔ وہ انھیں ایجو کیٹ کریں اورانفرادی طورپرانھیں ایک بہترانسان بنانے کی کوشش کریں۔ مسلمان ابھی اجتماعی طورپرکچھ کرنے کی پوزیشن میں نہی ہیں کیونکہ اچھی جماعت کے لئے اچھے افراد درکارہوتے ہیں جوابھی مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں۔
مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان میں کا ہرایک لالواورنتیش بنا ہوا ہے ۔ میزائیل مین اے پی جےعبد الکلام نے اپنی کتاب ٹرننگ (Turning point)  پوائنٹ میں لکھا ہے کہ جب وہ بہارکے دورے پرتھے توایک مرتبہ لالوپرساد اورنتیش کماردونوں اسٹیشن پران کا استقبال کرنے پہنچے لیکن دونوں دوطرف دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے دونوں لیڈران کوملا یاتھا۔
لڑنا بھڑنا ایک فطری عمل {natural phenomena }ہے لیکن اسی کے ساتھ صلح و صفائی بھی ایک فطری امر ہے۔ لیکن مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ مسلمان ایک فطری امرکو جانتے ہیں اوردوسرے فطری امرکو نہیں جانتے۔
میں یہ باتیں کسی جاہ ومنصب کے حصول کے لئے نہیں لکھ رہا ہوں۔ میں یہ باتیں صرف اس لئے تحریرکررہا ہوں کیوں کہ مجھے اسلام نے یہی سکھا یا ہے۔ مجھے سیدھی بات کہنے کے لئے کہا گیا ہے۔ قرآن میں ہے:
اے ایمان والو! اللہ تعالی سے ڈرواورسیدھی سچی بات کیا کروتاکہ اللہ تعالی تمہارے کام سنواردے اورتمہارے گناہ معاف فرمادے،اورجوبھی اللہ تعالی اوراس کے رسول کی تابعداری کرے گااس نے بڑی مراد پالی۔( الاحزاب : -(70-71(
ہمیں یہ جانناچاہئے کہ اس دنیا میں کوئی حکومت دائمی نہیں ہے۔ یہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ یہاں خدا کا وہ قانون نافذ ہے جس کے تحت وہ انسانوں کے درمیان وقت کوبدلتارہتا ہے۔ آج کوئی اورحکومت میں ہے توکل کوئی اورحکومت میں ہوگا۔ یہاں حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، چنانچہ کسی حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ دائمی طورپرکسی قوم کواپنا نشانہ بنا سکے۔ قرآن کاارشاد ہے: "ہم دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتے ہیں" (3: 14(
مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ سازشی تھیوری کوچھوڑکراس بدلتے ہوئے ایام کی تیاری میں لگ جائیں جوخدا کی طرف سے کسی قوم کے لئے بہترین مواقع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ اپنے اندرقائدانہ صلاحیت پیدا کریں، اورسب سے بڑھ کریہ کہ وہ دینے والی کمیونٹی بن کررہیں۔ وہ اپنے بچوں کو پڑھائیں اورخود بھی پڑھیں۔ وہ اپنے ہرگھرکولائبریری اورلبوریٹری میں تبدیل کردیں۔ وہ خدا کی کتاب قرآن سے زندگی کی روشنی، امید ،اور طاقت حاصل کریں۔

پیر، 22 اپریل، 2013

Future trading


مستقبل کی سرمایہ کاری

محمد آصف ریاض
اگرآپ کتابوں کا مطالعہ کریں اورانٹرنیٹ پربیٹھ کرعالمی اخبارات ورسائل کو پڑھیں تو آپ کو محسوس ہوگا کہ دنیا کے بہترین دماغ دنیوی امورپرسوچنے اور تفکر کرنے میں مصروف ہیں۔ وہ ورلڈلی میٹر (worldly matter) پر بہترین مضامین اورکتابیں تصنیف کررہے ہیں۔
مثلا فرید زکریاکوپڑھیں تومعلوم ہوگا کہ وہ عالمی سیاست کےچمپین بنے ہوئے ہیں۔ پال کروگ مین{ paul krugman} کو پڑھیں تومعلوم ہوگا کہ وہ عالمی معیشت کی تمام باریکیوں پرنگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح میزائل مین اے پی جےعبد الکلام کو پڑھیں تومعلوم ہوگا کہ 2020 تک ہرحال میں وہ ہندوستان کوسوپرپاور دیکھنا چاہتے ہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ( stephen hawking) کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ دنیا کے تمام سائنسی ڈیولپمنٹ پرنگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کےمحمد یونس کوپڑھیں تومعلوم ہوگا کہ وہ معیشت کی نزاکت سے خوب واقف ہیں ۔ ترکی کے اورہن پامک ( Orhan Pamuk ) کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ وہ ناول نگاری میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں۔ خوشونت سنگھ کوپڑھیں تومعلوم ہوگا کہ اس شخص کوچھوٹی بات سے بڑی بات بنانے کا فن آتا ہے۔
ایک خوفناک ا لمیہ  
یہ ایک المیہ ہے کہ ہماری دنیا کے بہترین دماغ صرف ورلڈ لی میٹرکی ڈسکوری میں مصروف ہیں، کسی کو بیا ئونڈ ورلڈلی میٹرکا علم نہیں۔ جولوگ دنیوی معاملات میں بہت زیادہ ذہین نظرآتے ہیں اگر آپ ان سے آخرت کی بات کریں تویہی لوگ آپ کوبڑے سفہا نظرآئیں گے۔ یہ لوگ ورلڈلی میٹر (worldly matter) کو خوب سمجھتے ہیں لیکن بیاﺅنڈ ورلڈلی میٹر{ be·yond worldly matter } کی کوئی سمجھ نہیں رکھتے، کیوں؟
اس لئے کہ یہ ان کا کنسرن نہیں ہے۔ آخرت کی تیاری  مستقبل کی سرمایہ کاری یعنی  فیوچرانوسٹمنٹ کا معاملہ ہے اورکوئی مستقبل کا انتظارکرنا نہیں چاہتا۔ ہرآدمی ورلڈلی گین کے لئے اپنی توانائی صرف کررہا ہے۔ کیوں کہ ایسا کرنے سے اسے نقد ملتا ہوا نظر آتا ہے۔

مثلا اگرآپ معیشت پرلکھیں توآپ کی معیشت بہترہوجائے گی۔ آپ سیاست پرلکھیں توآپ کا ایک سیاسی حلقہ بن جائے گا۔ آپ سماجیات پرلکھیں توسماج میں آپ کواعلی مقام حاصل ہوجائے گا۔ آپ کہا نی لکھیں توآپ کوایوارڈ ملے گا۔ لیکن اگرآپ خدائی پیغام کولکھیں توگویا آپ نے فیوچرٹریڈینگ  ( Future traiding )کی، اس کا بدلہ آپ کو فیوچرمیں ملے گا۔ اوریہ واقعہ ہے کہ کوئی مستقبل کا انتظارکرنا پسند نہیں کرتا۔
شاید ایسے ہی دنیا پرستوں کے لئے بائبل میں حضرت مسیح علیہ السلام کی زبان سے یہ الفاظ جاری ہوئے ہیں:
افسوس ہے تم پرکہ تم کھا چکے، اب تم بھوک مروگے، افسوس ہے تم پرکہ تم ہنس چکے، اب تم روﺅگے اورماتم کروگے"
Woe to you who are well fed now, for you will go hungry. Woe to you who laugh now, for you will mourn and weep.
New International Version (©2011)
 Luke 6:25))

بدھ، 3 اپریل، 2013

Evolution a scientific deception

نظریہ ارتقا ایک سائنسی فریب 

محمد آصف ریاض
اسٹیفن ہاکنگ نےاپنی کتاب دی گرانڈ ڈیزائن (The grand design)میں کئی دلچسپ واقعات نقل کئے ہیں۔ ان میں ایک واقعہ یہ ہے۔


معروف یونانی سائنسداں اورفلاسفراناکسی میندرAnaximander کا ماننا تھا کہ بچہ پیدائش کے وقت اتنا کمزورہوتا ہےکہ وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ وہ اس نتیجہ پرپہنچا کہ زمین پرپہلاانسان اگربچہ پیداہواہوتا تووہ ضرورمرگیا ہوتا۔ انسان کی تخلیق نومولود بچوں سے ممکن نہیں ہے۔ یہیں سے نظریہ ارتقا Evolution theory) ( کا آغازہوا۔ گویا اناکسی میندرنظریہ ارتقا پرسوچنے والا دنیا کا پہلا انسان تھا۔


Anaximander, Argued that since human infants are helpless at birth, if the first human had somehow appeared on earth as an infant, it would not have survived. In what may have been humanity first inkling of evolution, people, Anaximander reasoned must therefore have evolved from other animals whose young are hardier.

The grand design, page 30


'اناکسی میندر' کاماننا تھا کہ زمین پھاڑ کریا پانی کے اندر سے کوئی مچھلی یا مچھلی کی شکل کا کوئی جانورنکلا اسی کے پیٹ کےاندرانسان پرورش پاتا رہا ہے اورجب جوان ہوگیا تومچھلی نےاسے زمین پرڈال دیا: مزید جاننے کے لئے دیکھئے ویکی پیڈ یا۔


Anaximander c. 610 – c. 546 BC) of Miletus considered that from warmed up water and earth emerged either fish or entirely fishlike animals. Inside these animals, men took form and embryos were held prisoners until puberty; only then, after these animals burst open, could men and women come out, now able to feed themselves


اناکیسی میندرکی یہ سوچ صحیح تھی کہ پہلا انسان بچہ پیدا نہیں ہواہوگا۔ تاہم اس کی یہ سوچ کہ انسان بچہ پیدانہیں ہواہوگا تولامحالہ وہ کسی جانورسےارتقا پاکرانسان بنا ہوگا، ایک ایسا دعوی ہے جس کے لئےآج تک کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی۔


سوال پیداہوتا ہے کہ ایسا کیوں سوچ لیا گیا کہ زمین پرپہلا انسان آیا ہوگا تووہ بچہ ہی آیا ہوگا۔ یہ بھی سوچا جا سکتا تھا کہ پہلا انسان جوان ہوگا اوروہ اپنی زوج کے ساتھ اس دنیا میں بسایا گیا ہوگا۔


سارامسئلہ بچے کا ہے۔ یعنی یہ فرض کرلیا گیا کہ نسل انسانی کی تخلیق کے لئے ضروری ہے کہ پہلا انسان بچہ ہی پیدا ہواوراگرایسانہیں ہے توانسان جانور سےارتقا پاکرانسان بناہوگا۔


یہ کیوں سوچا گیا کہ جانورسے ایک پروسس چلا کرانسان کی تخلیق ہوئی۔ یہ کیوں نہ سوچا گیا کہ ایک انسان کے جوڑے سےانسان کوپھیلادیا گیا۔ رہا یہ سوال کہ وہ پہلا انسان کس طرح پیداہوا؟ تومذہب میں اس کا جواب معلوم ہے کہ پہلےانسان کوخدا وند نے مٹی سے پیدا کیا پھراس کے گوشت سےاس کے جوڑاکونکالااورپھرانھیں زمین پربسا دیا اوران کے ذریعہ سے نسل انسانی کوروئے زمین پرپھیلا دیا۔


لیکن اس سوچ میں ایک خطرہ تھا۔ وہ یہ کہ اس صورت میں یہ ماننا پڑتا کہ پہلے انسان کوخدا وند نے پیدا کیا اورپھر وہ نسل انسانی کو پھیلا رہا ہے، شاید اسی لئے کچھ سائنسداں اسے ماننے سے انکار کرتے رہے کیوں کہ خدا وند کے ساتھ ان کا بیر ہے۔


لیکن دوسری صورت میں پھریہ سوال رہ جا تاہےکہ اگرانسان جانورسے پیدا ہواتووہ پہلاجانورکہاں سے آیا؟ جیسا کہ اناکسی میندرکاماننا ہےکہ انسان مچھلی کے پیٹ میں بڑھتارہااورپھرمچھلی نےاسے جوان کرکےزمین پراگل دیا۔ توپھر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مچھلی کہاں سے آگئی؟ پہلی مچھلی کی تخلیق کس طرح ہوئی؟ اگرپہلی مچھلی بچہ پیداہوئی اورزندہ رہ گئی تو پہلا انسان بچہ پیدا ہوکرزندہ کیوں نہیں رہ سکتا؟ اوراگرمعاملہ دوسرا تھا۔ یعنی پہلی مچھلی کوکسی اور صورت میں پیدا کیا گیا تھاتو پھراسی صورت میں انسان کی تخلیق کیوں نہیں ہو سکتی۔ یعنی حیرت انگیزطورپربلکہ معجزاتی ڈھنگ سے مچھلی یا کوئی جانورتوپیدا ہوسکتا ہے لیکن انسان پیدانہیں ہوسکتا۔ یہ بھی ایک عجیب سائنس ہے۔

اگریہ کہاجائے کہ ایک انسانی جوڑے کو آسمان سےاتاراگیا اورپھراس سے زمین پرنسل انسانی کو پھیلا دیا گیا تویہ زیادہ عجیب وغریب اورنا قابل یقین بات معلوم پڑتی ہے یا یہ کہ آسمان سے ایک مچھلی اتری یا زمین پھاڑکرایک مچھلی نکلی اور پھراس سے انسان پیدا ہوا۔ بلا شبہ پہلی بات زیادہ قرین قیاس اورعقل سے قریب معلوم پڑتی ہے ۔اس کے برعکس دوسری بات اتنی بے تکی ہے کہ کوئی اس پر یقین نہیں کر سکتا۔ نظریہ ارتقا کی تھیو ری اسی قسم کی بے بنیاد باتوں پر رکھی گئی تھی۔

اناکسی میندر سے لے کر ڈارون تک جس نے ایولوشن کی تھیوری کو آگے بڑھایا اوراس کے بعد تک یعنی کم وبیش دوہزارسال کے مسلسل تگ ودو کے باوجود یہ نہیں ثابت کیاجاسکا کہ انسان کس طرح جانور سے انسان بن گیا۔ انسان سے جانوربننے کے درمیان جو بیچ کی کڑی تھی وہ کہاں رہ گئی؟ اس کڑی کو آج تک سامنے نہیں لایا جا سکا۔


انسانی تخلیق پرسائنس کی دوہزارسال کی محنت کسی نتیجے پرنہیں پہنچ سکی یہاں تک کہ جدید سائنس نےڈارون کی تھیوری کوردکردیا۔ ترکی کے ایک معروف اسکالراورساٴنسداں ہارون یحی نےڈارونزم ریفیوٹیڈ Darvanism refuted نامی ایک ضخیم کتاب لکھ کرنہایت فارمل انداز میں نظریہ ارتقا کی موت کااعلان کردیا اوران کے اس اعلان کو تقریباً ساری دنیا نے تسلیم بھی کرلیا۔

قرآن کا ارشاد ہے: جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں، پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دو ں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں توتم اس کے آگے سجدے میں گرجانا"
(38:71-72)

دوسری جگہ ہے: " وہی ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا"۔( 6—2)

بائبل میں ہے:

" خدا وند خدا نے زمین کی مٹی سے انسان کی تخلیق کی اوراس کے اندر زندگی کی روح پھونک دی اورانسان زندہ جاگتا ہوگیا"۔

The LORD God formed the man from the dust of the ground and breathed into his nostrils the breath of life, and the man became a living being.

New International Version (1984