زندہ اسپرٹ
محمد آصف ریاض
زندہ قومیں زندہ اسپرٹ کےساتھ جیتی ہیں۔ وہ اس احساس کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں کہ
ان کے پاس دنیا کودینےکےلئے بہت کچھ ہے۔ وہ اپنی امنگوں، امیدوں اورحوصلوں کے
ذریعہ زمین وآسمان پرچھاجاناچاہتی ہیں۔ ان کا طرزفکرفاتح کا طرزفکرہوتا ہے۔ وہ
سوچتی ہیں کہ اگرکوئی کام ہرآدمی کرسکتا ہے تووہ کیوں نہیں کرسکتے؟ اوراگرکوئی
نہیں کرسکتا تووہ اس کام کوضرورکریں گے۔
اس کے برعکس مردہ قوموں کاحال یہ ہے کہ وہ یہ
سوچتی ہیں کہ اگرکوئی کام سب کررہا ہے توسب کرے، ہم کیوں کریں؟ اور اگرکوئی نہیں
کرسکتا توبھلا ہم کس طرح کرسکتے ہیں؟
میزائیل مین اے پی جے عبد الکلام نے اپنی کتاب
اگنائیٹیڈ مائنڈ میں معروف سائنسداں پروفیسرسی وی رمن
(7
November 1888 – 21 November 1970) کی تقریرکا ایک اقتباس نقل کیا ہے وہ اس طرح ہے:
"میں یہاں اپنے سامنے موجود نوجوان مردوخواتین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ
اپنا حوصلہ اوراپنی امیدیں برقراررکھیں، انھیں ٹوٹنے نہ دیں۔ آپ کے سامنے جوعظیم
کام ہے وہ اسی وقت پائہ تکمیل کوپہنچ سکتا ہے جب کہ آپ عزم اورحوصلہ سے کام لیں۔
میں یہ بات بغیرکسی شبہ اورتضاد کے کہہ سکتا ہوں کہ ہندوستانیوں کےاندربھی وہی
اہلیت موجود ہےجوکسی نیوٹونک {یعنی جرمن نسل} یا نوریڈیک {شمالی یورپین ممالک}
یااینگلوسیکسن مائنڈ کی ہوتی ہے۔ ہمارے پاس شاید عزم اورحوصلے کی کمی ہے۔ ہمیں اس
ڈرائیونگ فورس کی ضرورت ہے جوکسی انسان کواس مقام پرپہنچاتی ہے جہاں کہ وہ پہنچنا چاہتا
ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوکہ ہم نےاپنےاندراحساس کمتری پیدا کرلی ہے۔ میرے خیال میں
ہندوستانیوں کےسامنےسب سے بڑاچیلنج شکت خوردہ اسپرٹ کو تباہ کرنے کا ہے۔ ہمیں فاتح
کی اسپرٹ درکارہے۔ ہمیں وہ اسپرٹ درکارہے جو ہمیں ہمارامقام دلاسکے، جوہمیں سورج
کے قریب لے جائے۔ ہمیں وہ اسپرٹ درکارہے جو ہمیں یہ احساس دے کہ ہم ایک پرفخرتہذیب
وتمدن کے وارث ہیں اوریہ کہ ہمیں
ہمارامقام ملنا چاہئے۔ اگرہمارے اندروہ اسپرٹ پیدا ہوجائے توکوئی بھی چیزایسی نہیں
جو ہمیں اپنے مقام پرپہنچنےسے روک دے۔"
I would like to tell the young men and women before me not
to lose hope and courage. Success can only come to you by courageous devotion to
the task lying in front of you. I can assert without fear of contradiction that
the quality of Indian man is equal to the quality of any Teutonic, Nordic or Anglo
Saxon mind. What we lack is perhaps courage, what we lack is perhaps driving
force, which takes one anywhere. We have, I think, developed an inferiority
complex. I think what is needed in India to day is destruction of that
defeatist spirit. We need a spirit of
victory, a spirit that will carry us to our rightful palce under the Sun, a
spirit which can recongnize that , we as inheritors of proud civilizaton, are
entitled to our rightful place on the planet. If that indimitable spirit were to
arise nothing can hold us from achiving our rightful destiny.
Ignited mind, by APJ Abdul Kalam, page 48.
میں سمجھتا ہوں کہ یہی بات توسیعی مفہوم میں ہندوستانی مسلمانوں کے
لئے بھی کہی جا سکتی ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان شکست خورہ ذہنیت سےنکلیں۔ وہ احساس
کمتری کو چھوڑیں ۔ وہ یہ نہ سوچیں کہ جو
کام کوئی نہیں کرسکتا تووہ اسے کیسے کرسکتے ہیں؟ وہ یہ سوچیں کہ کوئی کام اگرکوئی
نہیں کرسکتا تو وہ اسے ضرور کریں۔
ہندوستان مسلمانوں کو زمین کی روشنی اورلوگوں کے لئے امید کی کرن بن
کررہنا ہے۔ انھیں زمین کا نمک بنناہے اوراگرنمک اپنی نمکینی کھوودے تووہ کسی کام
کا نہیں ہوتا، اسی طرح اگرمسلمان اپنے اسپرٹ اوراپنی امنگوں کوکھودیں تو وہ کسی
کام کے نہیں رہیں گے۔