جمعرات، 15 جون، 2017

بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے

محمد آصف ریاض
محی الدین العربی عرب کا ایک نامورشاعرہے۔ وہ اہل علم کے درمیان العربی کے نام سے جاناجا تا ہے۔ اس کا ایک شعرہے۔ العبدعبد وان ترقی، والرب رب وان تتنزل: بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے۔
قرآن میں اللہ پاک کی صفات کا ذکران الفاظ میں ہوا ہے: لیس کمثلہ شئی؛ یعنی اللہ کےمثل کوئی شئے نہیں۔ ( سورہ الشوریٰ 11 )
ایک مشہورحدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:  وکلکم فقیرالا من اغنیت فسئلونی اررزقکم:
یعنی اے میرے بندو،" تم سب محتاج ہومگروہ جس کومیں عطا کروں، اس لئے تم مجھ سے مانگو میں تمہیں رزق عطا کروں گا۔"
یہ محتاجی اضافی معنی میں نہیں بلکہ حقیقی اور حتمی معنیٰ میں ہے۔ مثلاً انسان آکسیجن پرزندہ رہتا ہےاورآکسیجن کے لئے اسے پوری طرح خدا ئی نظام پرانحصارکرنا پڑتا ہے۔
آکسیجن درختوں سے حاصل ہوتا ہے اوردرختوں کی پیدا وارکے لئے پانی، روشنی اورہیٹ ضروری ہے۔ تو خدا نےسورج کا انتظام کیا۔ آسمان سے پانی برسایا۔ زمین نے اس پانی کواپنی گود میں سمیٹ لیا، پھرسورج نے اس پرروشنی برسا یا اس طرح زمین پرنباتات اگ آئے اورہم انھی نباتات سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
خدا اگراپنے اس اعلیٰ نظام کوچند منٹ کے لئے روک لے توانسان اسی طرح گھٹ گھٹ کردم توڑ دے گا جس طرح مچھلیاں پانی سے باہر تڑپ تڑپ کرجان دے دیتی ہیں۔ مچھلیاں پانی سے باہرکیوں مرجاتی ہیں؟ کیونکہ انھیں تحلیل شدہ آکسیجن چاہئےاوروہ صرف پانی میں ہی مل سکتا ہے۔ پانی کے باہران کے لئے آکسیجن نہیں اس لئے وہ مر جاتی ہیں۔
اسی طرح دیکھنے کا عمل ہے۔ انسان کے پاس دیکھنے کے لئے آنکھیں ہیں لیکن کیا وہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے؟ نہیں۔ اگرچیزوں میں روشنی کوجذب کرنے کی صلاحیت نہ ہوتوچیزیں اتنی زیادہ  ڈارک  ہوجائیں گی کہ آدمی آنکھ رکھنے کے  با وجود کچھ دیکھ نہیں سکتا ۔ خدانے سورج کو بنا یا آدمی اس روشنی میں چیزوں کودیکھتا ہے۔ لیکن وہ صرف انھیں چیزوں کودیکھ سکتا ہےجوچیزیں اپنےاندرسورج کی روشنی کوجذب کررہی ہیں جوچیزیں روشنی کوجذب نہیں کرتیں انسان انھیں دیکھ بھی نہیں سکتا۔
اب ایک مثال الو کی لیجئے۔ الو دن میں نہیں دیکھ پاتا کیوں کہ اس کی آنکھیں ایسی جگہ واقع ہوئی ہیں کہ جب وہ اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو سورج کی روشنی براہ راست ان پر پڑنے لگتی ہے جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں اور وہ کچھ بھی دیکھ نہیں پا تا۔ ذرا سوچئے کہ اگر انسان کی آنکھوں کی بنا وٹ میں بھی اسی قسم کی ترمیم کردی جائے توکیا ہوگا ؟ وہ سورج کی روشنی سے بھا گے گا اور آنکھ رکھنے کے با وجود کچھ دیکھ نہیں سکے گا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں ہرچیزکے لئے وہ اپنے رب کا محتاج ہے۔ اس کا رب اگراسے نہ کھلائے تووہ کھا نہیں سکتا، وہ اگرنہ پلائے تو وہ پی نہیں سکتا۔ وہ نہ دکھائے توانسان دیکھ نہیں سکتا۔ یعنی انسان اورخدا کے درمیان جورشتہ ہے وہ 'مین' اور'سپر مین' کا نہیں ہے بلکہ بندہ اوررب کا ہے۔ ایک غنی ہے اور دوسرا محتاج ۔ ایک کچھ نہیں ہے اوردوسرا سب کچھ ۔ ایک پیدا کرنے والا ہے اور دوسرا وہ جسے پیدا کیا گیا۔ یہی وہ واقعہ ہے جسے العربی نے اپنے شعرمیں ان الفاظ میں سمجھا نے کی کوشش کی ہے:
"العبدعبد وان ترقی، والرب رب وان تتنزل: بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے۔"
x

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں