آپ کی ہر بات ریکارڈ کی جا رہی ہے
محمد آصف ریاض
آٹھ مئی 2016 کودہلی میں
واقع ایک میگزین کےآفس میں جانےکا موقع ملا۔ وہاں موجود صحافیوں سے بات چیت ہوئی ۔
یہ بات چیت بہت خوشگوارماحول میں ہوئی ۔ تمام لوگوں نے میری باتیں بغورسنیں۔ وہاں
میری بات ریکارڈ کی جا رہی تھی ۔ جب میں اپنی بات کہہ چکا تومجھے خیال آیا کہ کہیں
میں کوئی غلط بات تو نہیں کہہ گیا؟ جب گھرواپس آیا تو ہربات اپنی بیوی سے دہرا یا،اوراس
سے پوچھا کہ میں نے کوئی بات غلط تو نہیں کہہ دی؟ کیونکہ وہاں میری ہربات ریکارڈ
کی جا رہی تھی۔ کیمرے کی وجہ سے میرے اوپرایک قسم کا دبائوتھااورمیں اپنی باتیں
بہت سوچ سمجھ کہہ رہا تھا۔
اب میں سوچنے لگا کہ دنیا
کی ریکارڈنگ انسان کو کس قدرحساس بنا دیتی ہے۔ کیمرے کے سامنے جب بولنا ہو تو انسان
بولنے سے پہلے بھی سوچتا ہے اوربولنے کے بعد بھی۔ وہ ایک مرتبہ نہیں ہزارمرتبہ
سوچتا ہے۔ کیوں ؟ اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ جو کچھ وہ بول رہا ہے وہ اس کے خلاف
شہادت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس دنیا میں ایک اور
ریکارڈنگ ہے جس سے انسان غافل ہے۔ وہ اس قدر خفیہ ہے کہ انسان کو پتہ بھی نہیں
چلتا اوراس کی ہر بات ریکارڈ کر لی جاتی ہے۔
قرآن میں ہے کہ انسان
بولتا بھی نہیں کہ لکھنے والا اس کو لکھ لیتا ہے۔ " یقیناً تم پرنگہبان عزت
والے ، لکھنے والے مقرر ہیں، وہ جانتے ہیں جو کچھ تم کرتے ہو"۔
وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ﴿١٠﴾ كِرَامًا كَاتِبِينَ ﴿١١﴾ يَعْلَمُونَ مَا
تَفْعَلُونَ ﴿١٢﴾
آدمی کا حال یہ ہے کہ
وہ بول رہا ہے۔ وہ بے تکان بولتا جا رہا ہے، نہ بولنے سے پہلے سوچتا ہے اور نہ
بولنے کے بعد! کیوں؟ اس لئے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ کوئی اس کو پکڑنے والا نہیں ہے۔
کہیں کوئی کیمرہ نہیں ہے جو اس کی کہی ہوئی بات کوشہادت (evidence)
کے طور پر استعمال کر سکے۔
کاش! انسان یہ جان لیتا
کہ وہ جہاں بھی ہو جو کچھ بھی کرتا یا بولتا ہو، اس کا ہر قول ہر فعل خدا کے یہاں
ریکارڈ میں ہے۔ قرآن میں ہے۔ "چاہے تم کوئی بات پکارکرکہو، وہ تو چپکے سے کہی
ہوئی بات بلکہ اس سے مخفی تر بات کوبھی جانتا ہے 20: 7))
( اورتم جہاں کہیں بھی ہو، وہ تمہارے ساتھ ہے اورجو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالی
اسے دیکھ رہا ہے ) الحدید / 4
( کیا آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی آسمانوں وزمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔
تین آدمیوں کی سرگوشی نہیں ہوتی مگر وہ ان کا چوتھا ہوتا ہے اور نہ پانچ کی مگر وہ
ان کا چھٹا ہوتا ہے اور نہ اس سے کم اور نہ ہی زیادہ مگر وہ جہاں بھی ہوں وہ ان کے
ساتھ ہوتا ہے پھر قیامت کے دن انہیں ان کے اعمال سے آگاہ کرے گا بیشک اللہ تعالی ہر
چیز کو جاننے والا ہے ) المجادلۃ / 7
کاش ، اگرانسان یہ جان
لیتا کہ اس کا ہرقول اورہرفعل ایک خدائی کیمرے میں محفوظ کیا جا رہا ہے، تو وہ بولنے
کا تحمل نہیں کرتا۔ اس کا حال یہ ہوجا تا کہ وہ بولتا کم اورسوچتا زیادہ ۔
بلال ابن حارث کہتے ہیں
رسول صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا۔ آدمی اللہ کی ناراضگی کی ایک بات کہتا ہے ، وہ
اس کو زیادہ اہم نہیں سمجھتا ۔ مگر اللہ اس پر اپنی ناراضگی اس وقت تک کے لئے لکھ
لیتا ہے جبکہ وہ اس سے ملے گا۔
روایات میں آتا ہے
علقمہ تابعی نے کہا کہ بلال ابن حارث کی حدیث نے مجھے بہت سی بات بولنے سے روک
دیا۔
(رواہ ابن ماجہ و
الترمذی )
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں