اگر آپ کے پاس تخلیقی ذہن ہے توکوئی آپ کو روک نہیں سکتا
محمد آصف ریاض
بہارکے دربھنگہ ضلع کے
رہنے والے ایک نوجوان جمیل شاہ کی یہ خواہش تھی کہ وہ بالی ووڈ کے بڑے ستاروں
کےساتھ کام کرے۔ وہ انھیں دیکھے اوران کے ساتھ رقص کرے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے
لئے جمیل شاہ پہلےدہلی آئے پھریہاں سے بنگلورگئے اوراس کے بعد فلمی نگری ممبئی پہنچ
گئے۔
وہ بیک گرائونڈ ڈانسربن
کربڑے بڑے فنکاروں کے ساتھ ڈانس کرنا چا ہتے تھے۔ لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں تھا
کیونکہ وہ ایک غریب آدمی تھے۔ اسی درمیان ان کی ملاقات معروف ڈانس گروسندیپ سپارکرسے
ہو ئی۔ سپارکرنے بغیرفیس لئےجمیل کوڈانس سکھا نا شروع کردیا۔ لیکن اس دوران ایک اورمسئلہ
کھڑا ہوگیا۔ رقص کے جوتے بہت مہنگے ہوتے ہیں۔ ان جوتوں کو خریدنے کے لئے دس ہزار
سے لے کرلاکھوں روپے تک خرچ کرنا پڑتا ہے اورجمیل کے لئے اتنا پیسہ جٹانا آسان
نہیں تھا۔ عام طور پر ڈانسراپنے جوتے انگلینڈ سے امپورٹ کرتے ہیں۔ جمیل انگلینڈ سے
جوتے امپورٹ نہیں کرسکتے تھے،چناچہ انھوں نے ڈانسروں کے جوتوں کا گہرا مشاہدہ کیا
اوراسی قسم کا ایک جوتا بنا کراپنے گرو سندیپ سپارکرکو دکھا یا۔
یہ جوتا فلم انڈسٹری
میں زیادہ ترلوگوں کو پسند آیا اور پھر 2007 سے جمیل نے با ضابطہ طور پر جوتے بنانے
کا کام شروع کردیا۔ جمیل کہتے ہیں کہ سب سے پہلے انھوں نے ڈینو موریا کے لئے، پھر
پرینکا چوپڑا کے لئے، دھوم تھری میں عامرخان کے لئے، زندگی نہ ملے گی دوبارہ میں
ریتک روشن کے لئے، ان کے علا وہ عالیہ بھٹ، کاجول، اجئے دیوگن، سلمان خان، رنبیر
کپور، قطرینہ کیف، سری دیوی اور بہت سے دوسرے ستاروں کے لئے جوتے بنائے۔ اب حال یہ
ہے کہ انھوں نے جوتوں کا کاروبار شروع کردیا ہے اور زیادہ تر فلمی ستارے انگلینڈ کے بجائے انھیں سے جوتا خریدنا
پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کے جوتے اچھے بھی ہوتے ہیں اور بہت سستے بھی۔
ایک اور اسٹوری
ایک اردواخبارمیں جمیل
کی اس اسٹوری کوپڑھ کرمجھے ایک اوراسٹوری یاد آگئی۔ یہ اسٹوری میں نے How to
make wealth نامی ایک کتاب میں پڑھی تھی۔ یہ اسٹوری چرچ کے ایک ملازم کے بارے میں تھی۔
ایک شخص چرچ میں نوکری کرتا تھا۔ لیکن ایک بارایسا ہوا کہ وہاں کا پادری بدل گیا۔
اس نے ایک نیا قانون لایا ۔ اس نے کہا کہ تین مہینے کا وقت دیا جا تا ہے چرچ کے وہ
ملازمین جو انگریزی نہیں جانتے وہ انگریزی سیکھ لیں، جو لوگ انگریزی نہیں سیکھ
پائیں گے انھیں ملازمت سے نکال دیا جائے گا۔
تین مہینے بعد پادری نے
تمام ملازمین کو بلا یا اوران سے انگریزی کے بارے میں پوچھ تاچھ شروع کی۔ پیسٹرنے
کہا کہ میں اب تک انگریزی نہیں سیکھ سکا ہوں۔ پادری نے جواب دیا تو پھرآج سے آپ
کوئی اورنوکری ڈھونڈھ لیں۔ پیسٹرپریشان ہوا۔ وہ چرچ سے اداس ہوکرنکل گیا۔ لیکن اس
کی عادت تھی کہ جب وہ بہت مشکل میں ہوتا تھا توسگریٹ پیتا تھا۔ آج بھی اسے سگریٹ
کی طلب ہوئی۔ اور یہ طلب بہت شدید تھی۔ لیکن بہت دورتک پیدل چلنے کے با وجود اسے
سگریٹ کی کوئی دکان نہیں ملی۔ یہیں اس کے ذہن میں ایک آئڈیا آیا ۔ اس نے سوچا کہ
اس کی طرح کتنے لوگ ہوں گے جن کی جیب میں پیسہ ہوگا، اوروہ سگریٹ پینا چاہتے ہوں
گے لیکن کوئی سگریٹ بیچنے والا نہیں ہوگا۔ چنانچہ پیسٹر نےفیصلہ کیا کہ وہ چرچ کے
قریب ہی ایک سگریٹ کی دکان کھولے گا۔ اوراس نے دوسرے ہی دن چرچ کے قریب سگریٹ کا
ایک اسٹال لگا لیا۔ یہ اسٹال کامیاب ثابت ہوا، پھراس نے کئی اوراسٹالس لگوائے ، اس
طرح اس نے پورے امریکہ میں سگریٹ کا بزنس پھیلا دیا اور خوب پیسہ کمایا۔
کہا جا تا ہے کہ ایک
مرتبہ بینک کا ایک مینیجراس سے ملنے آیا۔ اس نے پوچھا کہ سر! آپ جانتے ہیں کہ
ہمارے بینک میں آپ کے کتنے پیسے ہیں؟ پیسٹر نے جواب دیا میں نہیں جانتا، البتہ
ہمارا منشی جانتا ہوگا۔ اس نے پوچھا کہ آپ کیوں نہیں جانتے؟ پیسٹرنے جواب دیا
"میں پڑھا لکھا نہیں ہوں" ! مینیجر نے حیرانی سے پوچھا۔ سر، ذرا سوچئے
کہ اگر آپ پڑھے لکھے ہوتے تو کیا ہوتے؟ پیسٹر نے قدرے اطمینان سے کہا" چرج کا
ایک نوکر۔"
اصل بات یہ ہے کہ یہ
دنیا امکانات کی دنیا ہے۔ اورکسی امکان کو واقعہ وہی لوگ بنا
سکتے ہیں جواپنےاندر تخلیقی ذہن رکھتے ہوں۔ جو بہت سوچتے ہوں اورکریٹیو مائنڈ کے
ساتھ سوچتے ہوں، جو ڈرینڈ سیٹر ہوں نہ کہ ٹرینڈ فولور۔ اس دنیا میں کامیابی کا صرف
اور صرف ایک ہی راز ہے اور وہ ہے؛ محنت، محنت اور تخلیقی ذہن کے ساتھ محنت۔
کسی دانشورکا قول ہے: " اگر آپ کے پاس تخلقی ذہن ہے
توکوئی آپ کو روک نہیں سکتا۔"
When
you have a creative mind it doesn't stop going))