میں مرنا نہیں چاہتا تم مجھے مرنے سے بچالو
محمد آصف ریاض
ان دنوں پت جھڑکاموسم
ہے۔ اس موسم کوموسم خزاں بھی کہتے ہیں۔ اس موسم میں فطری طورپرایسا ہوتا ہےکہ درخت
کے پرانے پتے جھڑنے لگتے ہیں اورنئے پتے ان کی جگہ لےلیتے ہیں۔
کل جب میں درختوں کے
درمیان سے گزررہا تھا تودرخت کے بہت سے پرانے پتے جھڑ رہے تھے اوران کی جگہ بہت سے
نئے پتے درختوں پرابھررہے تھے۔ انھیں دیکھ کرمیں تھوڑی دیرکے لئے ٹھہرکرسوچنے لگا
کہ خدا کی کائنات میں کوئی چیزآزاد نہیں ہے۔ یہاں ہرچیزایک محدود آزادی کےساتھ کام
کررہی ہے۔ یہاں کی ہرچیزآسمانی نظام کے تحت بندھی ہوئی ہے۔ یہاں کسی کے لئے یہ
موقع نہیں کہ وہ خدا کے نقشہ کوہٹا کراپنے نقشہ کے مطابق زندگی گزارسکے۔ درختوں کے
بس میں نہیں ہے کہ وہ ان ٹوٹتے ہوئے پتوں کوگرنےسے بچالیں،اورنہ ہی کسی انسان کے
بس میں ہے کہ وہ انھیں زمین پر گرنے سے روک لے۔
یہی حال اس دنیا کا ہے۔
یہاں کسی کا گرنا ہے اورکسی کا ابھرنا، کسی کا ابھرنا ہے اور کسی کا گرنا۔ اس دنیا
میں ہرروزبہت سےانسان آتے ہیں، اوربہت سےانسان چلے جاتے ہیں۔ وہ یہاں کمزوری کے
بعد طاقت پاتے ہیں، ناکامی کے بعد کامیابی حاصل کرتے ہیں اورپھرایک مدت گزارکرموت
کی کھائی میں ٹھیک اسی طرح گرادئے جاتے ہیں جس طرح خزاں کے موسم میں درختوں کے پتے زمین پرگرا دئے جاتے ہیں۔
جس طرح کوئی درخت اپنے
پتوں کوگرنے سے نہیں بچا پاتا، اسی طرح کوئی انسان اپنے مرنے والوں کو بھی نہیں
بچا پاتا۔ ایک آدمی طاقت پاتا ہے اورکمزوری کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے، ایک آدمی
شہرت پاتا ہےاورگمنامی کی طرف دھکیل دیا جا تا ہے۔ ایک آدمی مال جمع کرتا ہے اورمفلسی
کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ ایک آدمی اپنے لئے خوشیاں حاصل کرتا ہے اورحسرت و یاس
کی کھائی میں گرا دیا جاتا ہے۔
انسانی سرگرمیوں کو
دیکھئے تومعلوم پڑتا ہے کہ انسان ہرچیزپرقدرت حاصل کر چکا ہے، وہ اپنی عقل کے
ذریعہ زمین و آسمان پرچھا چکا ہے۔ وہ ہرروز آگے کی طرف بڑھ رہا ہے، وہ اپنی
سرگرمیوں میں اتنا آگے نکل چکا ہے کہ ایک وقت میں اسے یہ لگنے لگتا ہے کہ اسےہرچیز
پرکنٹرول حاصل ہو چکا ہےاوراب اسے کسی خدا کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ چیخ اٹھتا ہے کہ "ہرکام
چل رہا ہے خدا کے بغیر بھی"۔
لیکن آنے والا وقت
بتاتا ہے کہ انسان کی تما م سرگرمیاں موت کی طرف تھیں، وہ صرف اس لئے تھیں کہ شاخ پرتروتازہ
ہوکر ایک موسم میں جھڑ جائیں۔ انسان پرموت کا گزرنا بتاتا ہے کہ انسان اپنے تمام
تراختیارات کے ساتھ بہت ہی بےاختیار مخلوق ہے۔
ہیگو شاویز( وفات،5
مارچ 2013 ) سائوتھ امریکہ کے بہت بڑے لیڈر تھے۔ ان کے حامیوں کا دنیا بھرمیں بہت
بڑا جتھا تھا۔ وہ آئرن مین کہے جاتے تھے۔ لیکن جب موت آئی تو بڑی بے چارگی کی حالت
میں آئی۔ ان کے معاون نے بتا یا کہ وہ موت سے قبل کچھ بولنے کی کوشش کررہے تھے ،
میں نے جب کان لگا یا تو وہ کہہ رہے تھے:
" میں مرنا نہیں
چاہتا، برائے کرم تم مجھے بچا لو، مجھے مرنے مت دو"
'I don't want to die, please don't let me die'
Daily Mail, 7 March 2013
درختوں سے پتوں کا
جھڑنا صرف اس لئے ہے کہ انسان اس سے اپنے لئے سبق حاصل کرے، وہ جانے کے جس طرح پتے
اپنی تمام ترشادابیوں کے ساتھ زمین پرگرا دئے جاتے ہیں، اسی طرح انسان بھی اپنی
تمام ترسرگرمیوں کے ساتھ موت کی کھائی میں گرا دیا جائے گا۔
قرآن میں اسی حقیقت کا
اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
"اب اگرتم کسی کے محکوم
نہیں ہواوراپنے اِس خیال میں سچّے ہو، تو جب مرنے والے کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی
ہے اورتم آنکھوں دیکھ رہے ہوتے ہو کہ وہ مر رہا ہے، اُس وقت اُس کی نکلتی ہوئی جان
کو واپس کیوں نہیں لے آتے؟ اُس وقت تمہاری بہ نسبت ہم اُس کے زیادہ قریب ہوتے ہیں مگرتم کو نظر نہیں آتے۔ 56: 83- 87
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں