مجھے"حاجی الہی بخش" کی
تلاش ہے
محمد آصف ریاض
1857
کی جنگ میں انگریزوں نے دہلی کی جامع مسجد پر قبضہ جما لیا تھا۔ یہاں نمازممنوع
تھی ۔ انگریزوں نے اس مسجد کو اپنے قبضے میں لے کرفوجی بارک بنا لیا تھا۔ 1858 میں
کینٹر بری کے لاٹ پادری کا حکم نامہ آیا کہ دہلی میں اسقف اعلیٰ کا عہدہ قائم کیا
جائے۔
انگریزی اخباروں نے شور
مچایا کہ جامع مسجد کو گرجا گھر بنا دیا جائے۔ اور یہاں اسقف کا مرکز قائم کیا جا
ئے لیکن حکومت نے وسیع ترمصلحتوں کے پیش نظراپنے ارادے کو بدل دیا۔ البتہ مسلمانوں
کی ناراضگی کے باوجود مسجد بدستور فوجی بارک بنی رہی۔
1862 میں انگریزوں نے اس شا ہجہانی
مسجد کو نیلام کردیا۔ تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ سب سے بڑی بولی میرٹھ کی قریشی برادری کے ایک فرد حاجی الہی بخش نے
لگائی۔ حاجی الہی بخش نے پچھتر ہزار روپے نقد ادا کر کے مسجد کو انگریز حکومت سے
خرید لیا اور پھراسے نماز کے لئے مسلمانوں کے حوالے کردیا۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے تاریخ نظریہ پاکستان؛ پروفیسر محمد سلیم۔
قومیں اگر زندہ ہوں تو وہ پہاڑ جیسے بوجھ کو بھی بخوشی اپنے سر پر اٹھا لیں گی اور اگر مردہ ہوں تو رائی کا ہر دانہ انھیں پہاڑ نظر آئے
گا۔
کل اگر ہندوستانی مسلمان عروج کے
مقام پر فائز تھے تو اس کی وجہ یہی تھی کہ انھوں نے اپنے آپ کو زندہ رکھا تھا، وہ
ہر چیلینج کو قبول کر نے کے لئے تیار رہتے تھے ان کے درمیان ہر وقت کوئی نہ کوئی حاجی الہی بخش موجود رہتا تھا اور آج اگر مسلمان
اپنے آپ کو پسماندہ پاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ان کے درمیان کو ئی الہی
بخش موجود نہیں ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں