کیا ہم اس کار عظیم کے لئے تیار ہیں؟
محمد آصف ریاض
ہندوستانی مسلمانوں کو
شکایت ہے کہ انھیں سیاست میں حصہ داری
نہیں دی جا تی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں جان
بوجھ کرسیاسی میدان میں
پیچھے دھکیل دیا جا تا ہے۔ ان کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ مسلم اکثریت والے حلقوں
کو ایس سی،ایس ٹی کے لئے ریزرو کردیا گیا ہے اور قانون کے مطابق مسلمان ایس سی ایس
ٹی نہیں ہو سکتے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی نمائندگی پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں
سکڑکررہ گئی ہے۔
مثلاً سچر کمیٹی کی
رپورٹ کے مطابق بہار، اتر پردیش اور مغربی
بنگال میں تیس سے زیادہ اسمبلی کی سیٹیں
وہ ہیں جنھیں ایس سی ایس ٹی کے لئے ریزرو کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں ایس سی ایس
ٹی کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسی طرح ملک بھرمیں 70 سے زیادہ لوک
سبھا کی سیٹیں وہ ہیں جہاں مسلمان آسانی کے ساتھ کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن یہاں بھی
یہی پریشا نی ہے کہ مسلم اکثریت والی تقریباً 30 سے 32 حلقوں کو ایس سی ، ایس ٹی کے لئے ریزر کر دیا گیا ہے۔ مزید جانکاری کے
لئے پڑھئے سچر کمیٹی کی رپورٹ:
مسلمان گزشتہ ساٹھ
سالوں سے حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ مسلم اکثریت والے حلقوں کو ان ریزرو کر دیا
جائے، اس مطالبہ کو لے کر کئی بار ملک کے مسلم لیڈران ملک کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کر چکے ہیں۔ مثلا زکواۃ فائونڈیشن آف انڈیا،
مسلم مجلس مشاورت، جماعت اسلامی ہند اورجمیعۃ العلماء ہند جیسی ملی تنظیموں نے ملک
کے حکمراں طبقات سے ملاقات کر کے مسلم سیٹوں کو ڈی ریزر کر نے کا مطابلہ کیا ہے
اور کرتے رہے ہیں۔ زکواۃ فائونڈیشن کے سید ظفر محمود نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات
کے موقع پرسونیا گاندھی اور جناب راہل گاندھی کو اس سلسلے میں خط بھی لکھا تھا۔
مسلم اکثریت والے
انتخابی حلقوں کو ایس سی ایس ٹی کے لئے ریزرو کئے جانے کے خلاف ملک کے مسلمان اکثر
احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب نادانی کا معاملہ ہے۔ مسلمان
اس معاملہ میں ہارڈ آپشن کو لے رہے ہیں حالانکہ ان کے لئے ایزی آپشن بھی موجود ہے۔
لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے مزاج کے مطابق اس طرح بگڑ چکے ہیں کہ وہ وہاں بھی
ہارڈ آپشن لیتے ہیں جہاں ان کے لئے ایزی آپشن پہلے سے موجود ہوتا ہے، یعنی
مسلمانوں کا معاملہ آبیل مجھے مار کا مسئلہ ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہ
سے کسی نے پوچھا کہ نبی کا کوئی پسندیدہ عمل بتائے تو آپ نے جواب دیا کہ جب آپ کے
سامنے دو آپشنس ہوتے تھے تو آپ ہمیشہ آسان آپشن کو لے لیتے تھے۔
He always opted for the easy option
آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ہمیشہ آسانی کو پسند کرتے تھے۔ آ پ فرمایا کرتے تھے یسرو
ولا تعسرو و بشرو ولا تنفرو یعنی آسانیاں پیدا کروتم لوگ مشکل پیدا مت کرو، تم لوگ
بشارت سنانے والے بنو، تم لوگ نفرت پھیلانے والے مت بنو۔
وہ آسان آپسن کیا ہے؟
مسلما نوں کے سامنے پوری دنیا بشمول ہندوستان میں سب سے آسان آپشن دعوت دین کا آپشن ہے ۔ مسلمان اگراس ملک میں خدائی پیغام کو لے
کراٹھیں توان کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے جنھیں حل کرنے کے لئے وہ ایک
عرصہ سے جانی اور مالی جدو جہد کر رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں تقریباً
پچیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں اگر ہرمسلمان مرد عورت اپنی
طرف سے پانچ غیر مسلموں کو قرآن پہنچا دیں تو چند ہی سالوں میں پورے ہندوستان میں
دعوت کا پیغام عام ہوجائے گا اورنتیجہ کار وہ پیشن گوئی پوری ہوچکی ہوگی جسے حدیث
کی کتابوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے"خدا کا کلمہ ہرگھر میں پہنچ کر رہے گا چاہے
لوگ پسند کریں یا نہ کریں۔"
ہندوستانی مسلمان اگراس
کار عظیم (خدائی پیغام ) کو لے کراٹھیں تو اس کا فوری نتیجہ یہ نکلے گا کہ 80 کروڑکی
آبادی میں 10 کروڑ سعید روحیں جوامکانی مسلم کی صورت میں سچائی کو پانے کے لئے
پہلے سے ہی بیتاب ہیں، بہت جلد اپنے باپ آدم کے دین کو قبول کر لیں گی۔ اگرایسا
ہوا تو حالات اس طرح پلٹا کھائیں گے کہ مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، یعنی آج
جو کیرالہ کی آبادی ہے، اس آبادی کے لحاظ سے 4 ریاستیں وجود میں آجائیں گی اور یہ
سب 10 سے 15 سالوں کے اندر ہی ہو جائے گا۔
ملک کےمسلمان اگراس دوسرے آپشن کو لیں تو وہ پائیں گے کہ قرآنی دعوت کے نتیجہ میں انھیں
وہ تمام چیزیں مل گئیں جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ صحابہ نے اسی راستہ پر
چل کرکامیابی حاصل کی تھی تو کیا وجہ ہے کہ مسلمان اسی راستے پر چل کرناکام ہو
جائیں؟۔ایک اور انداز میں سوچئے کہ آج اس ملک میں جو مسلمان ہیں وہ بھی کبھی
امکانی مسلم ہی تھے، ان کے اسلاف نے خدائی دین کو سمجھا اور مسلمان ہوگئے تو اگر
آپ اور آپ کے باپ دادا دین اسلام کو پسند کر سکتے ہیں تو دوسرے لوگ ایسا کیوں نہیں
کر سکتے؟ ہمارے ان کے درمیان ایسا کیا فرق ہے؟ ہمارے اور ان کے درمیان وزڈم کا
کوئی فرق نہیں بلکہ اس بات کا فرق ہے کہ ہمارے باپ دادا کو جن لوگوں نے دین پہنچا
یا تھا وہ ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے بہت اچھے تھے اور ہم جن لوگوں کو دین
پہنچانے جا رہے ہیں وہ اپنے کردار کے لحاظ سے ہم سے اچھے ہیں کمی ان میں نہیں ہے
کمی خود ہمارے اندر ہے، یعنی کمی مدعو میں نہیں ہے کمی خود داعی کے اندر ہے۔ ہمیں رسول اور اصحاب رسول کے طریقہ پر چل کراس کمی
کو دور کرنا ہے اور قرآن کے ذریعہ سے وہ کامیابی حاصل کر نی ہے جسے ہم کسی اور
ذریعہ سے حاصل نہیں کر سکتے۔
اب رہا اصل مسئلہ ایس
سی، ایس ٹی ریزریشن کا تو اس کوایک اور انداز میں سمجھئے، جن اسمبلی اور پارلیمانی
سیٹوں میں مسلمانوں کی خا صی تعداد ہے اور وہاں
کی سیٹیں ریزرو کر دی گئی ہیں اگر مسلمان وہاں قرآن پھیلائیں اور لوگوں کو خدا کا
دین پہنچائیں تو انھیں ایس سی ایس ٹی کے
اندر بہت سے امکانی مسلمان 'رجل مومن' مل
جائیں گے جو ایس سی ایس ٹی رہتے ہوئے مسلمان ہوں گے اوراپنے اپنے حلقوں کی نمائندگی
کررہے ہوں گے۔ یعنی آفیشیلی تو وہ شڈیلڈ کاسٹ یا شڈیلڈ ٹرائب کے افراد ہوں گے لیکن
ان آفیشیلی وہ مسلم ہوں گے۔ اور یہ وہ مسلم ہوں گے جنھیں قرآن میں "رجل مومن"
کہا گیا ہے۔ یعنی ایسا مومن جو ابھی ڈکلیئرڈ نہ ہو بلکہ اس نے اپنے آپ کوحکمت عملی
کے مطابق صیغہ راز میں رکھا ہو ، ملک کے کرسچن پہلے سے ایسا کر رہے ہیں۔
کرسچن کیا کرتے ہیں!
جھارکھنڈ میں ایک قبیلہ
رہتا ہے جسے مانٹوس Montos قبیلہ کہا
جا تا ہے۔ یہ قبیلہ تقریباً 86 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جھارکھنڈ میں کام کرنے والی
کرشچن مشنریوں نے اس قبیلہ کے 40 سے 50 فیصد آبادی کو کرسچن بنا لیا ہے۔ لیکن یہ
لوگ آفیشیلی کرسچن نہیں ہیں کیونکہ قانون کے مطابق اگرایس ٹی ایس ٹی کا کوئی شخص
کرسچن یا مسلمان بن جائے تواس کا ریزر ویشن ختم ہوجائے گا، چنانچہ کرسچن ایسا کرتے
کہ وہ قبائلیوں کو کرسچن بنا لیتے ہیں لیکن ان کا نام اوران کا آفیشیل اسٹیٹس نہیں بدلتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں
ریزرویشن ختم کئے جانے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ لہذا آفیشیلی یہ لوگ ہندو ہوتے
ہیں اورعملاً کرسچن ۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے: Welcoming the Gospel in Jharkhand
اب سوال پیدا ہوتا ہے
کہ جب کوئی شخص شڈیلڈ کاسٹ اور شڈیلٹ ٹرائب ہوتے ہوئے عملاً کرسچن ہو سکتا ہے توکوئی
شخص شڈیلڈ کاسٹ اور شڈیلڈ ٹرائب کا ہوتے ہوئے مسلمان کیوں نہیں ہوسکتا؟ کرسچن اپنی
دانائی سے وہ کام کر رہے جو مسلمان اپنی نادانی کی وجہ سے نہیں کر پا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے مسائل پر
نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ مسلما نوں کا اصل مسئلہ تعصب یا سازش کا مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ اسی دنیا
میں بہت سی دوسری قومیں بھی رہتی ہیں جو تمام تعصبات اورسازشوں کے ساتھ اگے بڑھ رہی
ہیں ۔ مسلمانوں کا اصل مسئلہ نا دانی کا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کا حال آج وہی ہوگیا ہے جو دور
زوال میں یہود کا ہوگیا تھا، جس کی نشاندہی کرتے ہوئے یہود کے ایک پیغمبر ہبککوک (Habakkuk) نے کہا تھا:
"خدا تمہارے اوپر
نادانی کو انڈیل دے گا، تمہارے درمیان کوئی
دانا آدمی موجود نہ ہوگا جو تمہارے
مسائل کو حل کر سکے۔"
“God will pour upon you the spirit of foolishness, and
there will be no wise man among you”