جمعرات، 31 جولائی، 2014

Are we ready for this great job?

کیا ہم اس کار عظیم کے لئے تیار ہیں؟

محمد آصف ریاض
ہندوستانی مسلمانوں کو شکایت ہے کہ  انھیں سیاست میں حصہ داری نہیں دی جا تی۔  وہ کہتے ہیں کہ انھیں جان بوجھ  کرسیاسی میدان میں پیچھے دھکیل دیا جا تا ہے۔ ان کی سب سے بڑی شکایت یہ ہے کہ مسلم اکثریت والے حلقوں کو ایس سی،ایس ٹی کے لئے ریزرو کردیا گیا ہے اور قانون کے مطابق مسلمان ایس سی ایس ٹی نہیں ہو سکتے، جس کی وجہ سے مسلمانوں کی نمائندگی پارلیمنٹ اوراسمبلیوں میں سکڑکررہ گئی ہے۔
مثلاً سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق  بہار، اتر پردیش اور مغربی بنگال میں  تیس سے زیادہ اسمبلی کی سیٹیں وہ ہیں جنھیں ایس سی ایس ٹی کے لئے ریزرو کر دیا گیا ہے حالانکہ یہاں ایس سی ایس ٹی کے مقابلہ میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اسی طرح ملک بھرمیں 70 سے زیادہ لوک سبھا کی سیٹیں وہ ہیں جہاں مسلمان آسانی کے ساتھ کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن یہاں بھی یہی پریشا نی ہے کہ مسلم اکثریت والی تقریباً 30 سے 32 حلقوں کو ایس سی ، ایس  ٹی کے لئے ریزر کر دیا گیا ہے۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے سچر کمیٹی کی رپورٹ:
مسلمان گزشتہ ساٹھ سالوں سے حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ مسلم اکثریت والے حلقوں کو ان ریزرو کر دیا جائے، اس مطالبہ کو لے کر کئی بار ملک کے مسلم لیڈران ملک کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات  کر چکے ہیں۔ مثلا زکواۃ فائونڈیشن آف انڈیا، مسلم مجلس مشاورت، جماعت اسلامی ہند اورجمیعۃ العلماء ہند جیسی ملی تنظیموں نے ملک کے حکمراں طبقات سے ملاقات کر کے مسلم سیٹوں کو ڈی ریزر کر نے کا مطابلہ کیا ہے اور کرتے رہے ہیں۔ زکواۃ فائونڈیشن کے سید ظفر محمود نے 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے موقع پرسونیا گاندھی اور جناب راہل گاندھی کو اس سلسلے میں خط بھی لکھا تھا۔
مسلم اکثریت والے انتخابی حلقوں کو ایس سی ایس ٹی کے لئے ریزرو کئے جانے کے خلاف ملک کے مسلمان اکثر احتجاج کرتے رہتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب نادانی کا معاملہ ہے۔ مسلمان اس معاملہ میں ہارڈ آپشن کو لے رہے ہیں حالانکہ ان کے لئے ایزی آپشن بھی موجود ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مسلمان اپنے مزاج کے مطابق اس طرح بگڑ چکے ہیں کہ وہ وہاں بھی ہارڈ آپشن لیتے ہیں جہاں ان کے لئے ایزی آپشن پہلے سے موجود ہوتا ہے، یعنی مسلمانوں کا معاملہ آبیل مجھے مار کا مسئلہ ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عائشہ سے کسی نے پوچھا کہ نبی کا کوئی پسندیدہ عمل بتائے تو آپ نے جواب دیا کہ جب آپ کے سامنے دو آپشنس ہوتے تھے تو آپ ہمیشہ آسان آپشن کو لے لیتے تھے۔ He always opted for the easy option  
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ ہمیشہ آسانی کو پسند کرتے تھے۔ آ پ فرمایا کرتے تھے یسرو ولا تعسرو و بشرو ولا تنفرو یعنی آسانیاں پیدا کروتم لوگ مشکل پیدا مت کرو، تم لوگ بشارت سنانے والے بنو، تم لوگ نفرت پھیلانے والے مت بنو۔
وہ آسان آپسن کیا ہے؟
مسلما نوں کے سامنے پوری دنیا بشمول ہندوستان میں سب سے آسان آپشن دعوت دین کا آپشن  ہے ۔ مسلمان اگراس ملک میں خدائی پیغام کو لے کراٹھیں توان کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے جنھیں حل کرنے کے لئے وہ ایک عرصہ سے جانی اور مالی جدو جہد کر رہے ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں تقریباً پچیس کروڑ مسلمان رہتے ہیں اگر ہرمسلمان مرد عورت اپنی طرف سے پانچ غیر مسلموں کو قرآن پہنچا دیں تو چند ہی سالوں میں پورے ہندوستان میں دعوت کا پیغام عام ہوجائے گا اورنتیجہ کار وہ پیشن گوئی پوری ہوچکی ہوگی جسے حدیث کی کتابوں میں اس طرح بیان کیا گیا ہے"خدا کا کلمہ ہرگھر میں پہنچ کر رہے گا چاہے لوگ پسند کریں یا نہ کریں۔"
ہندوستانی مسلمان اگراس کار عظیم (خدائی پیغام ) کو لے کراٹھیں تو اس کا فوری نتیجہ یہ نکلے گا کہ 80 کروڑکی آبادی میں 10 کروڑ سعید روحیں جوامکانی مسلم کی صورت میں سچائی کو پانے کے لئے پہلے سے ہی بیتاب ہیں، بہت جلد اپنے باپ آدم کے دین کو قبول کر لیں گی۔ اگرایسا ہوا تو حالات اس طرح پلٹا کھائیں گے کہ مسلمان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے، یعنی آج جو کیرالہ کی آبادی ہے، اس آبادی کے لحاظ سے 4 ریاستیں وجود میں آجائیں گی اور یہ سب 10 سے 15 سالوں کے اندر ہی  ہو جائے گا۔ ملک کےمسلمان اگراس دوسرے آپشن کو لیں تو وہ پائیں گے کہ قرآنی دعوت کے نتیجہ میں انھیں وہ تمام چیزیں مل گئیں جن کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ صحابہ نے اسی راستہ پر چل کرکامیابی حاصل کی تھی تو کیا وجہ ہے کہ مسلمان اسی راستے پر چل کرناکام ہو جائیں؟۔ایک اور انداز میں سوچئے کہ آج اس ملک میں جو مسلمان ہیں وہ بھی کبھی امکانی مسلم ہی تھے، ان کے اسلاف نے خدائی دین کو سمجھا اور مسلمان ہوگئے تو اگر آپ اور آپ کے باپ دادا دین اسلام کو پسند کر سکتے ہیں تو دوسرے لوگ ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ ہمارے ان کے درمیان ایسا کیا فرق ہے؟ ہمارے اور ان کے درمیان وزڈم کا کوئی فرق نہیں بلکہ اس بات کا فرق ہے کہ ہمارے باپ دادا کو جن لوگوں نے دین پہنچا یا تھا وہ ہم سے اور ہمارے باپ دادا سے بہت اچھے تھے اور ہم جن لوگوں کو دین پہنچانے جا رہے ہیں وہ اپنے کردار کے لحاظ سے ہم سے اچھے ہیں کمی ان میں نہیں ہے کمی خود ہمارے اندر ہے، یعنی کمی مدعو میں نہیں ہے کمی خود داعی کے اندر ہے۔ ہمیں  رسول اور اصحاب رسول کے طریقہ پر چل کراس کمی کو دور کرنا ہے اور قرآن کے ذریعہ سے وہ کامیابی حاصل کر نی ہے جسے ہم کسی اور ذریعہ سے حاصل نہیں کر سکتے۔
اب رہا اصل مسئلہ ایس سی، ایس ٹی ریزریشن کا تو اس کوایک اور انداز میں سمجھئے، جن اسمبلی اور پارلیمانی سیٹوں میں مسلمانوں کی خا صی تعداد ہے اور وہاں کی سیٹیں ریزرو کر دی گئی ہیں اگر مسلمان وہاں قرآن پھیلائیں اور لوگوں کو خدا کا دین پہنچائیں تو انھیں ایس سی ایس ٹی  کے اندر بہت  سے امکانی مسلمان 'رجل مومن' مل جائیں گے جو ایس سی ایس ٹی رہتے ہوئے مسلمان ہوں گے اوراپنے اپنے حلقوں کی نمائندگی کررہے ہوں گے۔ یعنی آفیشیلی تو وہ شڈیلڈ کاسٹ یا شڈیلڈ ٹرائب کے افراد ہوں گے لیکن ان آفیشیلی وہ مسلم ہوں گے۔ اور یہ وہ مسلم ہوں گے جنھیں قرآن میں "رجل مومن" کہا گیا ہے۔ یعنی ایسا مومن جو ابھی ڈکلیئرڈ نہ ہو بلکہ اس نے اپنے آپ کوحکمت عملی کے مطابق صیغہ راز میں رکھا ہو ، ملک کے کرسچن پہلے سے ایسا کر رہے ہیں۔
کرسچن کیا کرتے ہیں!  
جھارکھنڈ میں ایک قبیلہ رہتا ہے جسے مانٹوس Montos قبیلہ کہا جا تا ہے۔ یہ قبیلہ تقریباً 86 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ جھارکھنڈ میں کام کرنے والی کرشچن مشنریوں نے اس قبیلہ کے 40 سے 50 فیصد آبادی کو کرسچن بنا لیا ہے۔ لیکن یہ لوگ آفیشیلی کرسچن نہیں ہیں کیونکہ قانون کے مطابق اگرایس ٹی ایس ٹی کا کوئی شخص کرسچن یا مسلمان بن جائے تواس کا ریزر ویشن ختم ہوجائے گا، چنانچہ کرسچن ایسا کرتے کہ وہ قبائلیوں کو کرسچن بنا لیتے ہیں لیکن ان کا نام اوران کا آفیشیل اسٹیٹس  نہیں بدلتے کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں ریزرویشن ختم کئے جانے کا خطرہ مول لینا پڑتا ہے۔ لہذا آفیشیلی یہ لوگ ہندو ہوتے ہیں اورعملاً کرسچن ۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے: Welcoming the Gospel in Jharkhand
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص شڈیلڈ کاسٹ اور شڈیلٹ ٹرائب ہوتے ہوئے عملاً کرسچن ہو سکتا ہے توکوئی شخص شڈیلڈ کاسٹ اور شڈیلڈ ٹرائب کا ہوتے ہوئے مسلمان کیوں نہیں ہوسکتا؟ کرسچن اپنی دانائی سے وہ کام کر رہے جو مسلمان اپنی نادانی کی وجہ سے نہیں کر پا رہے ہیں۔
مسلمانوں کے مسائل پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ مسلما نوں کا اصل مسئلہ  تعصب یا سازش کا مسئلہ نہیں ہے، کیونکہ اسی دنیا میں بہت سی دوسری قومیں بھی رہتی ہیں جو تمام تعصبات اورسازشوں کے ساتھ اگے بڑھ رہی ہیں ۔ مسلمانوں کا اصل مسئلہ نا دانی کا مسئلہ  ہے۔ مسلمانوں کا حال آج وہی ہوگیا ہے جو دور زوال میں یہود کا ہوگیا تھا، جس کی نشاندہی کرتے ہوئے یہود کے ایک پیغمبر ہبککوک (Habakkuk) نے کہا تھا:
"خدا تمہارے اوپر نادانی کو انڈیل دے گا، تمہارے درمیان کوئی  دانا آدمی موجود نہ ہوگا  جو تمہارے مسائل کو حل کر سکے۔"

“God will pour upon you the spirit of foolishness, and there will be no wise man among you”

بدھ، 23 جولائی، 2014

میں ہندوستانی مسلمانوں سے پوچھ رہا ہوں

میں ہندوستانی مسلمانوں سے پوچھ رہا ہوں

محمد آصف ریاض
ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ملک کی تقسیم کا سانحہ پیش آگیا۔ 1947 میں بٹوارے کے وقت پنجاب میں مسلمانوں کی اکثریت تھی لہذا یہ طے پا یا کہ پنجاب پاکستان کے ساتھ جا ئے گا، پھر یہ ہوا کہ پنجاب کے مشرقی علاقہ میں سکھ اورہندو رہتے تھے جو اس بٹوارے پرراضی نہ ہوئے تو مغربی پاکستان جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اسے پا کستان کو دے دیا گیا اور مشرقی پنجاب ہندوستان کے ساتھ رہا۔  اس طرح مغربی پنجاب کا 65 فیصد حصہ پاکستان کو گیا اور مشرقی پنجاب کا 35 فیصد حصہ ہندوستان کے حصے میں آیا۔
بٹوارے کی صورت میں بہت خون خرابہ ہوا۔ پروفیسر اے آر مومن A. R. Momin   کے مطابق تقسیم کے دوران تقریبا پانچ لاکھ لوگ مارے گئے۔ مغربی پنجاب میں مسلمانوں نے ہندوئوں اورسکھوں کو مارا اور مشرقی پنجاب میں ہندو اور سکھوں نے مسلمانوں کو چن چن کر قتل کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا تقریباً صفایا ہوگیا، ہزاروں مسجدیں نیست و نابود کر دی گئیں اور بہت سی مسجدیں سکھوں اور ہندوں کے قبضے میں چلی گئیں اوران میں بہت سی مسجدیں آج بھی ان کے قبضے میں ہیں۔
ملک کی تقسیم نے لوگوں کے دلوں کوبانٹ دیا تھا، حالانکہ جو احمق ملک کو بانٹ رہے تھے وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ صرف زمینوں کا بٹوارہ ہے، اس سے لوگوں کے دلوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ وہ اپنی جہالت میں اس قدرغرق تھے کہ انھیں پتہ ہی نہیں تھا کہ مذہب کے نام پرتقسیم بہرحال انسانوں کے دلوں کو بانٹ دے گا۔ بہرکیف وہی ہوا جو ہونا تھا۔ یعنی دونوں طرف سے زبردست خون ریزی ہوئی اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔ مزید جانکاری کے لئے پڑھئے : India wins freedom . by Maulana Azad
1984 میں آپریشن بلو اسٹار، وزیر اعظم اندرا گاندھی کا قتل، اور پھرسکھ  قتل عام کے بعد سکھوں میں مسلمانوں کے تئیں سیکنڈ تھاٹ پیدا ہوا۔ چونکہ ملک بھر میں سکھوں کو ہندوں کے ہاتھوں قتل و خون کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لئے انھوں نے اس برے وقت میں مسلمانوں کواپنے قریب پایا۔ پہلے جو سکھ مسلمانوں کو دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے، اب وہ مسلمانوں کے قریب ہونا پسند کرنے لگے تھے۔
موقع جو گنوا دیا گیا
1984 کے سکھ فساد کے بعد مسلمانوں کے تئیں سکھوں کی سوچ کا بدلنا گویا خدا کے اس قانون کے مطا بق ہوا تھا جسے قرآن میں نداولہا بین الناس یعنی ہم لوگوں کے درمیان وقت کو پھیرتے رہتے ہیں۔ یہ ملک کے مسلمانوں کے لئے بہت بڑا موقع تھا کہ وہ اپنے آپ کو سکھوں کے قریب کریں اورانھیں خدا کا کلمہ سنا ئیں۔ لیکن ملک کے مسلمان ایسا نہ کرسکے، کشمیر جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس کی سرحد پنجاب سے ملتی ہے لیکن اس نے بھی صرف فساد میں اضافہ کیا وہ خدا کے داعی کے طور پر سکھوں کو کچھ دے نہ سکے، انھوں نے بندہ خدا کو خدا کا کلمہ نہیں سنا یا، یعنی انھیں قرآن نہیں پہنچا یا گیا۔ اس طرح انھوں نے ایک سنہرا موقع (golden opportunity )  کھو دیا۔
مسلمانوں کے تئیں سکھوں کے رویہ میں تبدیلی کا عالم یہ تھا کہ جب میں 2008 میں چنڈی گڑھ گیا تو وہاں کے مفتی شہر سے منی ماجرا کے ایک مدرسہ میں میری ملاقات ہوئی ۔ میں نے ان سے پوچھا کہ یہاں مسلمانوں کا کیا حال ہے؟ انھوں نے بتا یا کہ ایک وقت تھا جب مسلمان اس ریاست میں اپنا نام لینے سے گھبرا تے تھے لیکن اب انھیں کھلی آزادی حاصل ہے، آج وہ ٹوپی کرتا پہن کراور داڑھی رکھ کر شہروں میں گھومتے ہیں اور کوئی انھیں روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔ انھوں نے بتا یا کہ سکھوں نے جن مساجد پر قبضہ جما رکھا تھا انھیں وہ خود ہی رضاکارانہ طور پر مسلمانوں کے حوالے کر رہے ہیں۔ بہار اور یوپی کے جو مسلم مزدور یہاں کام کررہے ہیں سکھ انھیں زمین دے کر بسا لیتے ہیں اوران پر مسجدوں کے دروازے کھول دیتے ہیں بعض اوقات وہ نئی مسجد بنا کربھی  دے دیتے ہیں۔
پنجاب کے شاہی امام حبیب الرحمٰن لدھیانوی سے فون پر ہماری بات چیت ہوئی تو ایک بات چیت میں انھوں نے بتا یا کہ اب تک انھوں نے ریاست میں 400 مسجدیں سکھوں کے ہاتھوں سے واگزار کرا لی ہیں اوران میں بہت سی مسجدیں وہ ہیں جنھیں خود سکھوں نے رضا کارانہ طور پر مسلمانوں کو واپس لوٹا  دیا ہے یا لوٹا رہے ہیں۔
فتح گڑھ صاحب میں دیوا گنڈواں (Diwa Gundwan) گائوں میں سکھوں اور ہندوں نے مل کر اس مسجد کی از سر نو تعمیر کی ہے جسے تقسیم کے وقت نقصان پہنچا یا گیا تھا۔ موگا کے نزدیک اجیت وال Ajitwal  گائوں میں ایک مسجد تھی جسے تقسیم کے وقت تقریباً مسمار کر کے کوڑا دان میں تبدیل کر دیا گیا تھا ، ایک دن چند سکھ ، مسلم اور ہندو طلبا نے اسے صاف کرنا شروع کیا اور پھر سبھوں نے مل کر اسے از سر نو تعمیر کر دیا۔
مسلمانوں کے تئیں سکھوں کے اندر بدلائو کا عالم یہ تھا کہ شرومنی گرودوا پربندھک کے ایک سابق صدر نے یہاں تک کہہ دیا کہ تقسیم کی لڑا ئی میں انھوں نے ایک مسلم کو مار دیا تھا اب انھیں اپنے جرم پر ندامت ہے اور وہ اس گناہ کو دھونے کے لئے ایک مسجد بنانا چاہتے ہیں اور انھوں نے اپنے گائوں میں ایک مسجد تعمیر کی ۔
1985 کے بعد مسلمانوں کے تئیں سکھوں کے رویہ میں آنے والی تبدیلی ملک کے مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا موقع تھا۔ مسلمان اس موقع کا استعمال کر کے سکھوں کے درمیان قرآن کا پیغام پیش کر سکتے تھے ، وہ وہاں اپنے لئے تجارت کے مواقع تلاش کر سکتے تھے ، لیکن کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان ایسا کرنے میں پوری طرح ناکام رہے۔ کشمیری جو سر حد پر ہونے کی وجہ سے سکھوں کے بہت قرب تھے وہ اپنی کشمیریت کا لبادہ اوڑھ کر سوئے رہے۔ انھوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ایک پڑوسی کے تئیں ان کی اپنی کوئی دینی ذمہ داری بھی ہے۔
 1985 کے واقعہ کا الٹا فائدہ بی جے پی نے اٹھا یا ۔ بی جے پی نے سکھوں کو یہ سمجھا یا کہ  سکھوں کا قتل عام کانگریس نے کرا یا تھا، حالانکہ کہا جا تا ہے کہ سکھوں کے خلاف اشتعال انگیزی میں ہندو تنظیموں کا بڑا کر دار تھا ۔ لیکن اس سچائی کے باوجود بی جے پی نے اسے کانگریس کا معاملہ بنا دیا۔
روزنامہ ہندو کی ایک رپورٹ کے مطابق  2014 کے لوک سبھا انتخابات  کے موقع پر موجودہ وزیر اعظم مسٹر مودی جب  پنجاب گئے تو انھوں نے وہاں عوام  سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اکالی دل کے ساتھ بی جے پی اتحاد صرف د دو پارٹیوں کا اتحاد نہیں ہے بلکہ یہ ہندو اور سکھ کا اتحاد ہے۔



Mr. Modi said that the alliance between the Akali Dal and BJP was not just political but represents Hindu-Sikh unity, which the Congress has tried in vain to sabotage through its “divide and rule” agenda.


The Hindu 24, 2014 03
مسلمانوں کو یہ شکایت ہے کہ  پوری دنیا میں ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کا سلوک ہوتا ہے لیکن وہ کبھی اس بات پر غور نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ ایسا کیوں ہورہا ہے؟ ان کے ساتھ ایسا اس لئے ہو رہا ہے کیوں کہ وہ پیغمبر کے مقام پر فائز کئے گئے لیکن وہ پیغمبرانہ ذمہ داری نبھانے میں ناکام رہے اس  لئے خدا نے لوگوں کے دلوں کو ان پر سخت کردیا۔ اورسزا کے طور پر انھیں  رسوائی کی پیٹ میں دفن کر دیا جس طرح  حضرت یونس کو مچھلی کے  پیٹ میں ڈال دیا تھا۔
 اب رسوائی کے  پیٹ سے نکلنے کے لئے مسلمانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ وہ توبہ نصوح سے کام لیں۔  وہ سچی توبہ کریں اور حضرت یونس کی طرح اپنے مشن پر لوٹ جائیں۔
ہندوستان میں ایک ارب  پچیس کروڑ لوگ رہتے ہیں ۔ اس میں  تقریباً پچیس کروڑ مسلمان ہیں ، چنانچہ  ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے پانچ قریبی ساتھیوں کو ایک ایک قرآن گفٹ کریں ۔ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک خدائی پیغام کو پہنچائیں۔ وہ خدائی دین کے علمبردار بنیں ۔ اسی راستے سے خدا نے ماضی میں انھیں  سر خرو کیا تھا اور دوبارہ اسی راستے سے وہ اس دنیا میں سر خرو ہو سکتے ہیں۔ اس کے علا وہ مسلمانوں کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔ خدا کے سامنے جب غیر مسلم یہ دعویٰ  کریں گے کہ خدا یا، مجھے کسی نے آپ کا پیغام نہیں پہنچایا تو خدا اس وقت مسلمانوں سے ضرور پوچھے گا کہ تم نے خدا کا کلمہ لوگوں کو کیوں نہیں پہنچایا؟ کیا مسلمان خدا کے اس سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہیں؟ میں ہندوستانی مسلمانوں سے پوچھ رہا ہوں!

ہفتہ، 12 جولائی، 2014

We have to fight with the book

ہمیں کتاب سے لڑنا ہے

محمد آصف ریاض
ایک صاحب سے دہلی میں ملاقات ہوئی۔ انھوں نے ملاقات کے دوران ایک بہت ہی سبق آموزواقعہ سنایا۔ انھوں نے بتا یا کہ ا یک شخص ایک جنگل سے گزررہا تھا۔ اس نے ایک پرندے کے بچے کوگھونسلے میں اسٹریگل کرتے ہوئے دیکھا ۔ وہ بچہ گھونسلہ کو پھاڑ کر باہر نکلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔
یہ دیکھ کر مذکورہ شخص کو رحم آگیا اور اس نے اپنے قلم  سے گھو نسلے کا منھ  بڑھا دیا۔ جیسے ہی گھونسلے کا منھ بڑا ہوا وہ بچہ چھلانگ لگا کر نیچے زمین پرآگیا۔ وہ اڑنا چاہ رہا تھا لیکن اڑ نہیں پا یا اورمر گیا۔
ایک تجربہ کارآدمی نے اسے بتا یا کہ آپ نے پرندے کے بچے کو ماردیا۔ اگر آپ اس کے گھونسلے کا منھ بڑا نہیں کرتے تو وہ زمین پرگرکرنہیں مرتا۔ اس نے بتا یا کہ پرندے باہری دنیا میں آ نے سے پہلے اپنی اندرونی دنیا یعنی گھونسلے میں بہت مشقت کرتے ہیں، یہ مشقت ان کے بال و پر کوبہت مضبوط کردیتی ہے ، یہاں تک کہ وہ ایک دن گھونسلہ کا منھ پھاڑ کر باہر نکل آتے ہیں اور فضائوں میں اڑنے لگتے ہیں۔
ہر آدمی کے اندر کمزوروں کی مدد کرنے کا جذبہ فطری طور پر موجود رہتا ہے۔ لیکن انسان اگر اپنے جذبے کو دماغ کے تابع نہ کرے تو ایسا ہوگا کہ وہ مدد کے نام پرمخلوق خدا کو ہلا کت میں ڈال دے گا۔ وہ پرندوں کو توانا ہونے سے پہلے ہی فضا ئوں میں  اڑنے کے لئے دھکیل دے گا۔
آج دنیا بھرمیں مسلمانوں کے لیڈران مسلمانوں کے ساتھ یہی کر رہے ہیں ۔ وہ انھیں ان کے گھروں سے نکال کر تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ وہ انھیں صبر کی جگہ بے صبری کا سکھا رہے ہیں، وہ انھیں امن کی جگہ جنگ کی بات بتا رہے ہیں۔ وہ خدائی کتاب کی جگہ گولہ بارود لے کر اٹھ رہے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کو خدا نے ایک ایسی کتاب دی ہے کہ اگراسے اچھی طرح ہر گھر میں پہنچا دیا جائے تو پوری دنیا سے جنگ خود بخود ختم ہوجائے گی۔
آج دنیا میں سات بلین انسان بستے ہیں۔ سب ایک ہی ماں باپ یعنی آدم کی اولاد ہیں۔ اب اگر انھیں قرآن پڑھنے کے لئے دیا جائے تو وہ ضرور اپنے باپ آدم کے دین کی طرف پلٹ آئیں گے۔ سات بلین انسانی آبادی میں ڈیڑھ بلین مسلمان ہیں، یعنی ہر مسلمان اگر پانچ قرآن اپنے غیر مسلم بھائیوں کے درمیان تقسیم کردے  تو کوئی وجہ نہیں کہ 10 سال کے اندر ساڑھے پانچ بلین انسانوں میں سے ایک بلین انسان آدم کے دین کی طرف پلٹ آئیں اور جب صورت یہ ہو کہ اتنی بڑی تعداد یعنی ساتھ بلین میں ڈھائی بلین مسلمان ہوں، تو پھر 10 سال کے بعد ان کی جو آبادی ہو گی اتنی بڑی آبادی سے کون لڑنا پسند کرے گا،  تب تو صورت حال یہ ہوگی کہ جنگ لڑے بغیر اپنا ہتھیار ڈال دے گی۔
مسلمانوں نے 628 میں صلح حدیبیہ کیا۔ یہ صلح دس سال کے لئے تھا ۔ اس وقت محض 1400 سو مسلمان مرد تھے جو حج کے لئے نکلے تھے جنھیں حدیبیہ کے مقام پر قریش نے جبراً روک لیا تھا۔ صلح حدیبیہ کے بعد No war treaty کی وجہ سے مسلمانوں کو دعوہ ورک کا موقع ملا اور اس دعوہ ورک کی وجہ سے ان کی تعداد دو ہی سال میں 10000 پہنچ گئی اورجب , 630میں مسلمان مکہ کی طرف بڑھے تو ان کی تعداد سے مرعوب ہو کر مکہ میں کوئی شخص مزاحمت کی جرئت نہیں کر سکا یہاں تک کہ ابو جہل کا بیٹا بھی نہیں۔

کیا مسلمان یہ واقعہ آج نہیں دہرا سکتے؟ کیا آج ہمارے ہاتھوں میں حدیبہ کا موقعہ نہیں ہے؟ کیا ہم اس آزمائے ہوئے کامیاب فارمولہ کو دوبارہ نہیں آزما سکتے؟ آپ کے دشمنوں کا حال یہ ہے کہ وہ آزمائے ہوئے ناکام فارمولہ کو بھی دوبارہ آزمانے سے نہیں چوکتے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ آزمائے ہوئے کامیاب فار مولہ کو بھی آزمانے میں تردد سے کام لے رہے ہیں ؟

معروف صحافی اور دانشور کلدیپ نیئر نے اپنی سوانح Beyond the lines میں لکھا ہے کہ ایک بار انھوں نے ایک امریکی ڈپلومیٹ سے پوچھا کہ آپ کی معیشت تو ہتھیاروں پرمنحصر ہوتی جا رہی ہے، تو اتنے ہتھیار آپ کہاں کھپائیں گے، اس نے جواب دیا کہ اس انڈسٹری کو جاری رکھنے کے لئے ہم جنگ کو جاری رکھیں گے۔   We will keep the war going
  
ان کو جنگ سے فائدہ ہے تو وہ جنگ کی آگ بھڑکا رہے ہیں میں پوچھتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس سے کیا فائدہ مل رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں تو پھر مسلمان جنگ کیوں کریں؟
مسلمانوں کی انڈسٹری قرآن سے چلتی ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو جہاں کہیں وہ ہتھیار لے کر نکلتے ہیں آپ ان کے جواب میں قرآن لے کر نکلئے، صحابہ نے یہی کیا تھا اور کامیاب رہے تھے، تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان اسی کتاب کو لے کر نکلیں اور ناکام ہو جائیں؟

جمعرات، 10 جولائی، 2014

Nothing is impossible for the willing heart

چاہنے والے دل کے لئے کوئی شئے نا ممکن نہیں ہے

محمد آ صف ریا ض
ملک کے مسلمان نہیں چاہ رہے تھے کہ ملک میں مودی کی سرکار بنے۔ کیوں کہ مسٹر مودی گجرات معاملہ میں کافی بدنام ہوچکے تھے۔ تاہم 2014 کے پارلیمانی انتخاب میں سیکولر ووٹوں کی خوفناک تقسیم  اور مسلمانوں کی نادانی کی وجہ سے بھگوا پارٹی کو اقتدار پرقبضہ جمانے کا موقع مل گیا اور شری مودی ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔
اب ملک کے مسلمان اس اندیشے میں مبتلا ہیں کہ بی جے پی حکومت کے ہاتھوں انھیں مشکلات و تعصبات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انھیں لگتا ہے کہ بی جے پی اقلیتوں کو د ی جانے والی مراعات چھین لے گی ، وہ ان کے پرسنل لا میں مداخلت کرے گی، وہ وقف املاک کو تباہ کر دے گی، ملک میں فسادات کے واقعات بڑھ جائیں گے اور اس طرح مسلمانوں کے سامنے جان و مال کے تحفظ کا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا وغیرہ۔
لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک باطل اوربے بنیاد اندیشہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہاں ہرآدمی کے ساتھ محدودیت کا کیس لگا ہوا ہے۔ خدا نے اس کائنات کی تخلیق کچھ اس طرح کی ہے کہ یہاں ہر چیز اپنی محدودیت کے ساتھ باقی ہے۔ مثلاً ایک شخص کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے ذہن کی سطح پر جتنا چا ہے سوچے اور منصوبہ بندی کرے، لیکن اس کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے ذہنی منصوبہ کو ہو بہو خارجی دنیا میں بھی نافذ کر دے۔ جیسے ہی وہ ایسا کرنے کی کوشش کرے گا، اسے اپنے سامنے کئی قسم کی رکاوٹیں کھڑی نظر آئیں گی اور فوراً ہی اسے اپنی محدودیت (limitation) کا اندازہ ہو جائے گا۔ محدودیت کے معاملہ میں کسی کے لئے کوئی استثنا نہیں ہے۔ ہر آدمی کے لئے اس دنیا میں خدا کا ایک ہی قا نون ہے وہ یہ کہ ہر آدمی کو اپنی محدودیت کے ساتھ اپنی آزادی کا استعمال کرنا ہے ۔ چاہے وہ ملک کا عام آدمی ہو یا اپنے وقت کا بادشاہ۔
مثلاً مودی حکومت نے چا ہا کہ ہندی کو ملک کی د فتری زبان بنا دیں ۔ ان کی حکومت نے ایک سرکولر جاری کیا۔ اس سرکولرمیں افسران سے کہا گیا تھا کہ وہ زیادہ سے زہادہ ہندی کا استعمال کریں ۔ ایسا کرنے والوں کو انعام دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم جیسے ہی یہ معاملہ سامنے آیا پورے ملک میں ہنگا مہ کھڑا ہوگیا یہاں تک کہ حکومت کو یہ کہنا پڑا کہ اس نے ہندی کے لئے کوئی سر کولر جاری نہیں کیا ہے اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے ٹیوٹر پرقوم کو بتا یا کہ حکومت تمام زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لئے پابند عہد ہے۔
حکومت ہند 1965 سے ہی ہندی کو انگریزی کی جگہ لانا چا ہ رہی ہے، لیکن اسی محدودیت کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کر پا رہی ہے۔ ہندی کو انگریزی زبان کی جگہ لانے میں نہروحکومت ناکام رہی اوراب مودی حکومت نا کام ہوچکی ہے۔ اور یہ سب حکومت کی محدودیت کی وجہ سے ہوا ہے۔ مزید جاننے کے لئے پڑھئے کلدیپ نیئر کی سوانح بیائونڈ دی لائن Beyond the lines) (
بلا شبہ وزیراعظم مودی سو چنے کے لئے آزاد ہیں لیکن وہ جو کچھ سوچتے ہیں اسے روبہ عمل لانے کے لئے آزاد نہیں ہیں، جیسے ہی وہ بھگوا ایجنڈے کو نافذ کرنا چاہیں گے ان کے سامنے کئی قسم کی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی اورتب انھیں اپنی محدودیت کا اندازہ ہو جائے گا۔ مثلاً آرٹیکل 370 کے معاملہ میں ابھی ملک کے لوگوں نے حکومت کی محدودیت کا تجربہ کیا ہے۔  چنانچہ ملک  کے مسلمانوں کو حکومت کے تئیں اندیشے میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی انھیں سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ جو کام وہ اپنی نادانی کے ذریعہ خراب کر چکے ہیں اسے  وہ اپنی دوسری نادانی کے ذریعہ ٹھیک نہیں کرسکتے۔
مسلمان کیا کریں؟
ملک کے مسلمانوں کو اب اس سوچ کو ترک کر دینا چاہئے کہ حکومت کھلائے گی تب وہ کھائیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کے مسلمان مطالباتی سیاست سے یکطرفہ طور پردست بردار ہوجائیں اوراپنے پائوں پرخود اپنے بل پر کھڑے ہوں۔ وہ انفرادی ترقی پر زو دیں۔ وہ یہ جانیں کہ کسی بھی سماج کی ترقی میں حکومت کی شراکت داری محض 10 فیصد ہوتی ہے باقی 90 فیصد کام متعلقہ سماج کو کرنا پڑتا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے حصے کا 90 فیصد کام کرلیں ۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو وہ پائیں گے کہ ان کے سامنے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔
مثلاً وہ ہر گائوں میں پلس ٹو 2 +  لیول کا کوچنگ سینٹر چلائیں، ہرگائوں میں لائبریری قائم کریں، ہر لائبریری میں جدید دور کی کتابیں اور اخبارو رسائل دستیاب کرائیں، ہر گائوں میں اسپوکن انگلش کی کلاس کو یقینی بنائیں۔ تعلیم نسواں پر خاص زور دیں کیونکہ مسلم خواتین عام طور پر گھر میں بیٹھ کر رہ جاتی ہیں اور اس طرح قوم کی آدھی طاقت گھر کی چہار دیواریوں میں قید ہو کر رہ جاتی ہے، مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو بڑی تعداد میں ٹیچر بنائیں، اسکول کھولیں، نرس بنائیں، ڈاکٹر بنائیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انھیں ہر حال میں ایجو کیٹ کریں کیونکہ مستقبل کی نسلیں انہی کی گود میں پلیں گی۔ اس کام کے لئے بہت بڑے  بجٹ کی ضرورت نہیں ہے، یہ کام گائوں کے لیول پر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ اسٹرانگ چاہت ہے۔ اور کسی نے کہا ہے: "Nothing is impossible for the willing heart  " یعنی چاہنے والے دل کے لئے کوئی شئےنا ممکن نہیں ہے۔

پیر، 7 جولائی، 2014

Why should i die for your interest?

تمہارے فائدہ کے لئے ہم کیوں مریں؟

محمد آصف ریاض
ملک کے معروف اخباروں کے مطابق معروف تمل ادا ارہ مونیکا (Monica) نے 30 مئی 2014 کو اسلام قبول کرلیا۔ مونیکا نے اسلام قبول کرتے ہوئے کہا کہ " میں اسلامی اصولوں کو پسند کرتی ہوں اسی لئے میں نے اسلام قوبل کیا ہے''۔
اس سے قبل تمل ناڈو کے ہی ایک معروف نغمہ نگاراے ایس دلیپ کمار نے 2004 میں اسلام قبول کرلیا تھا اوراپنا نام اللہ رکھا رحمٰن یعنی اے آر رحمٰن رکھا تھا۔

اسی طرح ملیشیا میں ایک چینی اداکارہ (Felixia Yeap ) نے 3 جولائی 2014 کو اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔ انھوں نے عین رمضان کے مہینے میں اسلام قبول کرتے ہوئے کہا کہ اسلام کی آغوش میں آکرمجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میری نئی پیدائش ہوئی ہو۔ انھوں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا :


" “Today is not just my birthday, but also the day that I am born again. The day that I finally return after 28 years of finding the way home,” ۔


اس طرح کے واقعات پوری دنیا میں تقریباً ہرروز پیش آ رہے ہیں۔ پوری دنیا میں اسلام قبول کرنے والوں کی لائن لگی ہوئی ہے جس کی وجہ سے اسلام دشمن عناصر گھبرائے ہوئے ہیں ۔ وہ پوری دنیا میں دنگا فساد پھیلا کراسلام کا راستہ روک دینا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ فساد کی آگ بھڑکا کر اسلام کا آشیانہ جلا دیں۔

اسلام امن کا مذہب


اسلام کے لئے سب سے سا ز گار ماحول امن کا ما حول ہوتا ہے۔ تجربہ بتا تا ہے کہ اگر کسی علاقے یا خطے میں امن قائم ہو تو وہاں اسلام بڑی تیزی سے پھیلنے لگتا ہے۔ زیادہ واضح انداز میں کہا جائے تو یہ کہا جا ئے گا کہ امن کی کھیتی میں اسلام کا پودا پروان چڑھتا ہے۔ خدا نے اپنے دین کا نام اسلام رکھا ہے۔ اسلام کے معنی ہوتا ہے امن peace ۔ دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا نام اسلام یعنی peace ہو۔ یہ صرف خدا کا دین ہے جس کا نام اسلام یعنی امن ہے۔ چنانچہ قرآن میں ہے:

بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے: الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ

مسلمان چونکہ دین اسلام کے پیروکار ہیں اس لئے ان پرلازم ہے کہ وہ پوری دنیا میں امن کا ماحول قائم کریں تاکہ ہرجگہ اسلام کا باغ سرسبزو شاداب ہوسکے۔ مسلمانوں کو یہ جاننا چاہئے کہ اسلام کی اشاعت اسی وقت ممکن ہے جبکہ دنیا میں امن کا ماحول قائم رہے۔

جولوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں درحقیقت وہ اسلام کے دشمن ہیں۔ وہ اسلام کی کھیتی کو تیارہونے سے پہلے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وہ بیج کو پودا بننے سے پہلے مٹا دینا چاہتے ہیں ۔ وہ ہر طرف جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں کیوں کہ اسی میں انھیں فائدہ نظرآتا ہے۔ اورجس چیز میں اسلام کے دشمنوں کا فائدہ ہو وہ کام مسلمان کیوں کریں؟ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ کسی بھی حال میں دنگا فساد میں ملوث نہ ہوں اورہرحال میں امن کے قیام کو ممکن بنائیں تاکہ اسلامی باغ کا پھل ہرگھرمیں پہنچ سکے۔

شیکسیئر نے کہا تھا :" ہمارے اوپرحکمرانی میں تمہیں فائدہ ہو سکتا ہے لیکن تمہاری غلامی میں ہمیں کیا فائدہ  ہوگا؟ یعنی جس چیز میں تمہیں فائدہ ہے اس چیز میں ہمیں فائدہ نہیں ہے تو ہم وہ کام کیوں کریں؟


It may be your interest to be our masters, but how can it be ours to be your slaves

یہی بات مسلمانوں کے لئے بھی درست ہے ۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ شر پسندوں سے کہہ دیں کہ ہم تمہاری اشتعال انگیز حرکت پر بھی مشتعل ہونے والے نہیں ہیں کیونکہ اس میں تمہا را فائدہ ہے اور تمہارے فائدہ کے لئے ہم کیوں مریں؟۔

مسلمانوں کو قرآن میں بتا یا گیا ہے کہ وہ جب کبھی جنگ کی آگ بھڑکا نا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے۔ ( سورہ المائدہ - 5:64)

جمعہ، 4 جولائی، 2014

What is the hurry?

اتنی جلدی کیا ہے؟

محمد آصف ریاض
مودی حکومت نے27 مئی 2014 کوایک سرکولرجاری کیا تھا۔ اس سرکولرمیں تمام وزارت اورمتعلقہ محکمات سے کہا گیا تھا کہ وہ سرکاری کا موں میں ہندی کو ترجیح دیں ۔ بینکوں اوردوسرے محکمات سے کہا گیا تھا کہ وہ سوشل میڈیا پرہندی کا استعمال کریں۔ ایسا کرنے والوں کوانعام سے نوازنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
جیسے ہی اس سرکولرکوعام کیا گیا، تمل نا ڈوسمیت ملک کے دوسرے خطے میں ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ ہرطرف سے اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔ اڈیشہ میں ایک رکن اسمبلی نے ہندی میں سوال پوچھا تو اسے ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔ تمل ناڈو میں  ڈی ایم کے چیف ایم کرونا ندھی نے مذکورہ سرکولر کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ "غیر ہندی بھاشیوں کو سیکنڈ کلاس شہری بنا نے کی ایک سازش ہے۔"


giving priority to Hindi will be construed as a first step towards attempt at creating differences among non-Hindi speaking people and making them second class citizens".


ہندی کے خلاف شورو غوغا اتنا بڑھا کہ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کوسامنے آکرصفائی پیش کرنی پڑی۔ انھوں نے ٹیوٹر پر لکھا کہ "وزارت ملک کی تمام زبانوں کی ترویج و اشاعت کے لئے پابند عہد ہے۔"


"”The ministry is committed to promote all languages of the country,”


اس پورے معاملہ پر ملک کے معروف صحافی اور دانشور کلدیپ نیئر نے ایک مضمون لکھا۔ اس مضمون کا عنوان تھا:


India & the politics of language


اس مضمون میں کلدیپ نیئر نے بتا یا کہ زبانیں تہذیب وثقافت سے جڑی ہوتی ہیں۔ کوئی بھی قوم اپنی زبان سے دست بردار ہونا نہیں چاہتی۔ بنگلہ پر اردو کو تھوپنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلہ دیش پاکستان سےعلیحدہ ہوگیا۔ زبان کا معاملہ بہت نازک اور پیچیدہ معاملہ ہوتا ہے چنانچہ اس کے بارے میں کوئی فیصلہ لینے سے پہلے بہت زیادہ غورو خوض کر لیناچاہئے۔ انھوں نے پوچھا کہ جلدی کیا ہے؟ اتنے سالوں تک انتظار کیا گیا تو کچھ اورانتظار کر لیا جائے تو کیا نقصان ہو جائے گا ؟ آخرکار ہر ریاست میں تمل ناڈو کو چھوڑ کر ہندی کو ایک لازمی سبجکٹ قرار دے دیا گیا ہے لوگ ہندی سیکھ رہے ہیں۔ مختلف ریاستوں سے جاب کی تلاش میں نکلنے والے لوگ ہندی سیکھ رہے ہیں۔ فلم نے ہندی کو پورے ملک میں پہنچا دیا ہے اور اب صورت حال یہ ہے کہ سائوتھ یعنی جنوبی ہند میں بھی کوئی شخص ہندی میں بات چیت کر سکتا ہے۔ انھوں نے پوچھا کہ 50 سال کے بعد کتنی زبانیں باقی رہ جائیں گی؟ چنانچہ اس معاملہ میں صبر ہی سب سے بڑی پالیسی ہے۔ یہاں تک کہ جنوبی ہند کے لوگ بھی اتر پردیش، راجستھان اور گجرات کی طرح ہندی می مہارت حاصل کر لیں۔


Meanwhile, the chauvinist supporters of Hindi should patiently wait till people all over the country are proficient in Hindi. Already, it is a compulsory subject in all the states except for Tamil Nadu. Job seekers from different states too have underlined the necessity of learning Hindi. Films have spread the language throughout the country and one can converse in the south in Hindi or Hindustani. A few more years will see the entire non-Hindi speaking population speaking the language fluently.


Published: July 1, 2014


یہ ایک واقعہ ہے جو بتا رہا ہے کہ کچھ سماجی معاملات اتنے پیچیدہ ہوتے ہیں کہ حکومت بھی ان کے سامنے مجبور ہوجاتی ہے۔ حکومت کے سامنے بھی اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا کہ وہ صبر کرے۔


اس ملک میں مسلمانوں کے بھی کئی معاملات ہیں۔ مثلا سیاسی معاملات ، معاشی معاملات ، سماجی معاملات وغیرہ۔ مسلمان انھیں ایک ہی جست میں حل کر لینا چاہتے ہیں۔ مثلا ان دنوں مسلمانوں کے درمیان سیاست کا غلغلہ ہے۔ ہر طرف جسے دیکھئے سیاسی گفتگو میں مصروف ہے۔ مدرسہ کے مولوی سے لے کر کالج کے بیچلر تک سب سیاسی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں ۔ انھیں لگتا ہے کہ سیاست کے ذریعہ وہ اپنا سب کچھ پا سکتے ہیں جنھیں وہ نادانی کے ذریعہ کھو چکے ہیں۔ لیکن اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے؟ کچھ بھی نہیں۔ بلکہ بعض اوقات یہ کائونٹر پروڈکٹیو ثابت ہوجا تا ہے۔


مسلمان سیاسی جنون میں یہ بھول چکے ہیں کہ سیاست نمبر گیم کا نام ہے۔ اس وقت اگر ملک کے سارے مسلمان متحد ہوکر بھی سیاست کریں تو وہ اپنی اس سیاست سے کچھ حاصل کر نے والے نہیں ہیں۔ کیوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ 15سے 20 فیصد کی ہی سیاست کر سکیں گے ، ہاں اگر وہ پچاس سال صبر کرلیں تو شاید انھیں یہ موقع مل جائے کہ وہ پچاس فیصد کی سیاست کر سکیں۔

اسی طرح ان کے دوسرے مسائل ہیں جیسے بھید بھائو (discrimination) کا مسئلہ وغیرہ۔ ملک کے مسلمان اگران مسائل پر 50 سال صبر کرلیں اوراپنے آپ کو تعمیری کام میں لگا دیں، مثلاً اسکول کھولیں، لائبریری چلائیں، کالجز قائم کریں، اسپتال بنائیں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے والی قوم بن کررہیں ، جسے قرآن میں خیر امت کہا گیا ہے ۔ اگر وہ ایسا کریں تو وہ پائیں گے کہ جن مسائل کے حل کے لئے وہ بار بار سڑکوں پر اتر رہے تھے ان میں زیادہ تر مسائل وہ تھے جو خود بخود حل ہو گئے۔

مسلمانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نیچورل ریمیڈی کو نہیں جانتے۔ انھیں جاننا چاہئے کہ وقت کا ایک دھورا وہ ہے جسے وہ یا ان کے جیسے لوگ گھماتے ہیں اور ایک دھرا وہ ہے جسے خود خدائے پاک گھماتا ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو اس وقت تک صبر کرنا چاہئے جب تک کہ وقت کا دھورا ان کے فیور میں نہ آجائے۔ اس بات کو قرآن میں اس طرح سمجھا یا گیا ہے: ولربک فصبر، یعنی اپنے رب کے لئے صبر کرو۔