منگل، 8 اکتوبر، 2013

Learning from leaves

درخت پر پھیلے پتوں کا سبق
محمد آصف ریاض

پتے جب درخت پر ہوتے ہیں تو وہ درخت کے لئے زندگی کا سامان تیار کرتے ہیں۔ وہ سورج کی شعائوں کوجذ ب کر کے درخت کے لئے کھا نا پکاتے ہیں۔ درختوں کے اس عمل کو ضیائی تالیف (Photosynthesis) کہا جا تا ہے۔ درخت کے پتے کاربن ڈائی ایکسا ئیڈ کو جذب کر کے اسے آکسیجن میں تبد یل کرتے ہیں، وہ درخت کو طاقتور بنانے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔
Capture the sunlight from the Sun in order for the plant to make food. The process for the plant to make food is called Photosynthesis.
The leaves allow carbon dioxide to pass into it and oxygen and water vapours to pass out from the leaves. Which makes the food for the plant, then makes the plant healthy and stronger۔
پتے در خت کے لئے زندگی کا سامان تیار کرتے ہیں اورجب وہ اپنا کام کرچکے ہوتے ہیں تو نہایت خاموشی کے ساتھ زمین پر گرجاتے ہیں۔
تاہم یہ پتے زمین پرگرنے کے بعد اپنی سرگرمیاں ترک نہیں کردیتے بلکہ یہاں بھی درخت کے لئے وہ اپنی قربانیاں جاری رکھتے ہیں۔ مثلاً وہ درخت کے لئے کھاد بن جاتے ہیں اور زمین کی زرخیزی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مٹا کراپنی جان کی قیمت پردرخت کو تناور اورعظیم الشان بناتے ہیں۔

قوم اگر درخت ہے تو افراد اس کے پتے
یہی کام کسی انسان کو اپنی قوم کے ساتھ کرنا ہے۔ 'قوم اگر درخت ہے تو افراد اس کے پتے'۔ قوم کے تمام افراد پر یہ لازم ہے کہ وہ قوم کوعظیم الشان بنانے کے لئے اپنا سرگرم کردار ادا کریں اورجب ان کا کردار ختم ہوجائے تو خاموشی کے ساتھ پتوں کی طرح پیچھے ہٹ کراپنی گمنامی کی قیمت پرقوم کوطاقت پہنچا ئیں۔
کوئی درخت اپنے پتوں کے بل پرتناور اورعظیم الشان بنتا ہے، اسی طرح  کوئی قوم اپنے افراد کے بل اور ان کی قربانیوں پر طاقتور اور عظیم الشان بنتی ہے۔ یہی پتوں کا سبق ہے۔
افراد کو قوم کی سرفرازی کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل رہنا ہے اور جب انھیں لگے کہ ان کا رول اب ختم ہو چکا ہے تو نہایت خاموشی کے ساتھ انھیں پیچھے ہٹ جانا ہے۔ فوج جب مورچے پر ہوتی ہے تو نہایت سر گرم کردار ادا کرتی ہے اور جب مورچہ پر اس کا کردار ختم ہوجا تا ہے تو وہ خاموشی کے ساتھ بیریک میں واپس آجاتی ہے۔
یہ درحقیقت قربانی اورڈسپلین کا معاملہ ہے۔ کوئی قوم اپنے افراد سے عظیم الشان بنتی ہے۔ اگرکسی قوم کے افراد قربانی کے جذبہ اور ڈسپلین سے خالی ہوں تووہ قوم پودا ہی رہے گی وہ کبھی بھی عظیم الشان درخت نہیں بن سکتی۔ مسلمان آج ایک عظیم الشان قوم نہی ہیں کیوں کہ ان کے اندر نہ ڈسپلین ہے اور نہ ہی قربانی کا وہ جذبہ جو درخت کے تئیں پتوں کے اندر پا یا جا تا ہے۔
خدا وند درختوں پرپتوں کو اگا رہا ہے اور پھر وہ انھیں  نیچے گرا دیتا ہے تاکہ انسان انھیں دیکھ کرسبق حاصل کرے۔ لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ انسان کتابوں میں لکھی تحریروں کو توجانتا ہے،وہ کائنات میں پھیلی آفاقی تحریروں کو نہیں جانتا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں