عید کا پیغام
مسلمانوں کی اصل دوعید یں ہیں۔ ایک عید الفطراوردوسری
عید الضحی۔ رمضان کے مہینہ میں ایک ماہ تک روزہ رکھنے کے بعد مسلمان جوتہوارمناتے
ہیں اسےعیدالفطرکہاجاتاہے۔ مسلمان قمری کیلینڈر کے حساب سےعید مناتے ہیں اسی لئےعید
کا تعین چاند پرہوتا ہے۔ رمضان کے پورے مہینہ میں روزہ رکھنے کے بعد مسلمان آسمان
کی طرف سراٹھا کرچاند دیکھتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کا معاملہ آسمان سے
وابستہ ہے۔ انھیں اپنے ہرمعاملہ میں خدائی احکام کی طرف دیکھنا ہے۔ انھیں دنیا کابن
کرنہیں رہناہے۔ انھیں آخرت کا بن کررہنا ہے۔ اسی طرح انہیں نیچے کی طرف نہیں
دیکھنا ہےانھیں اوپر کی طرف دیکھنا ہے۔
عید سے پہلے ضروری ہے کہ مسلمان صدقہ اورفطرہ
نکال کرعید گاہ میں آئیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا جو فطرہ نہ نکالے وہ میری عیدگاہ میں نہ آئے۔
صدقہ فطرکاحکم: صدقہ فطرہرمسلمان پرفرض ہے حضرت عمر
رضى الله عنه سے روايت ہے۔
"رسول
اللہ صلى الله عليه وسلم نےصيام رمضا ن سے فارغ ہونے پرہرمسلمان پرصدقہ فطرفرض قرارديا
خواہ کوئی آزاد ہو ياغلام‘مرد ہو يا عورت ‘ چھوٹا ہو يا بڑا“۔(متفق علیہ)
عید کی نمازسے قبل مسلمان فطرہ نکالتے ہیں۔ یہ
اس بات کاعملی اظہارہے کہ اس دنیا میں مسلما نوں کودینے والی کمیونٹی بن کررہناہے۔
انھیں ہرحا ل میں اپنا ہاتھ
اونچارکھنا ہے۔ انھیں اس زمین پرخیرامت بن کررہنا ہے۔ انھیں اپنے خول میں نہیں
جینا ہے۔ انھیں اپنے خول سے نکل کرباہرکے ماحول میں قدم رکھنا ہے اورمعذوروں اورحاجتمندوں
کی ہرممکن مدد کرنا ہے۔ صدقہ فطرکا ایک عظیم پہلو یہ بھی ہے کہ سماج کا ہرشخص عید
کی خوشیوں میں شامل ہوجائے۔
عید کی نمازکے لئے روانہ ہوتے ہوئے مسلمان تکبیر
کہتے ہیں۔ وہ تکبیریہ ہے : اَللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُ اَکبَرُ لاَ
اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ .اَللّٰہ اَکبَرُ اللّٰہُ اَکبَرُ وَلِلّٰہِ
الحَمدُ
"یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا
ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ ساری تعریف اللہ ہی کےلئے ہے۔"
اس کلمہ میں ہردوسری چیز کی نفی ہے۔ یعنی مال
بڑانہیں ہے۔ عہدہ بڑا نہیں ہے۔ کنبہ اورقبیلہ بڑا نہیں ہے، جس پرکہ آدمی اتراتا
اورتکبرکرتا ہے۔ یہ کلمہ مسلمانوں کے اندر یہ اسپریٹ پیدا کرتی ہے کہ اللہ بڑا ہے۔
اللہ بڑا کی سوچ انسان میں عجزاورانکساری پیدا کرتی ہےاوریہی چیزخدا وند کو اپنے
بندوں سے مطلوب ہے۔ انسان جب بولتا ہے کہ اللہ بڑاہےتوگویا وہ اسی وقت اپنی ذات کی
تصغیرکررہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کوغروراورتکبرکی نفسیات سے نکال رہا ہوتا ہے۔ یہ کلمہ
مسلمانوں کو یاد دلا تا ہے کہ انھیں تکبراورسرکشی کی روش نہیں اپنا ناہے۔ انھیں
عجزاورانکساری کی روش پرچلناہے۔
مسلمان عید گاہ میں پہنچ کرعید کی دورکعت نمازپڑھتے
ہیں۔ پھرایک دوسرے سے بغل گیرہوتے ہیں اوردوست واحباب کو سوئیاں یا مٹھائیاں
کھلاتے ہیں۔ وہ بچوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ عمل اس بات کا
اعلان ہے کہ مسلمانوں کوحقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا خیال رکھنا ہے
انھیں سماج اورسوسائٹی کا ہوکررہنا ہے۔ انھیں اپنے ملک وہ ملت کی تعمیر میں اپنا
کردارادا کرنا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں