پیر، 12 اگست، 2013

My God is God of flowers


پھولوں کا خدا

پھولوں میں ایک پھول وہ ہے جسےدس بجیاکہتےہیں۔ یہ پھول گلابی رنگ کاہوتاہے،اوربہت ہی حسین ہوتاہے۔ اس پھول کودس بجیا اس لئےکہتے ہیں کیوں کہ یہ ٹھیک دس بجے کھلتاہے۔
اس دس بجیا پھول کودیکھ کرمجھے قرآن کی یہ آیت یادآگئی۔"سورج اورچاند کے لئےایک حساب ہے" یہ ایک معلوم واقعہ ہے کہ زمین سورج کےگردچکرکاٹتی ہے۔ زمین کےاسی روٹیشن کی وجہ سےرات اوردن کا سلسلہ جاری ہے۔ اگرزمین کےروٹیشن کاتوازن بگڑجائےتوہماری رات اورہمارے دن کاحساب بگڑجائے گا۔ زمین اپنے محورپرفی گھنٹہ  1,674.4کلومیٹرکی رفتارسے بغیرتھکے ہوئےدوڑتی ہے تاکہ وہ ہمارے لئےدن اوررات پیدا کرسکے۔
جس طرح رات اوردن کی تخلیق کوممکن بنانےکےلئے پوری زمین اپنے کام پرلگی ہوئی ہےاورایک اندازے سے اپنے محورپرگردش کررہی ہے۔ اسی طرح ایک پھول کوپھول بنانےکے لئے پوری کائنات سرگرم عمل ہےتب جاکرہمیں وہ چیزمل رہی ہےجسے ہم پھول کہتے ہیں۔ مثلاً ہوا، پانی، سورج اورموافق ٹمپریچروغیرہ، یہ سب مل کرایک مشترک عمل کرتے ہیں تب جاکرہمیں وہ چیزملتی ہے جسے ہم پھول کہتے ہیں۔
میراخدا پھولوں کاخدا ہے
جب سے یہ دنیا وجود میں آئی ہےاورجب سے اس زمین پرپھول کھل رہے ہیں، وہ سب خدا وند کےکھلائے ہوئے ہیں۔ آج تک کسی انسان نےکوئی پھول نہیں کھلا یا۔ ہرشخص کاغذ کے پھول کھلارہا ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ حقیقی پھول کھلانے کے لئے زمین وآسمان، سورج چانداورآب وہواسب کوبیک وقت ایک مشترک عمل پرلگا نا ہوگااوریہ کام کسی انسان کےبس میں نہیں ہے.  یہ کام صرف اورصرف خدا کے لئے ہی ممکن ہے۔ کسی انسان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ زمین وآسمان کومتحرک کردے اوراس کے ذریعہ سے کوئی با معنی تخلیق وجود میں لا سکے۔ یہ صرف خدا وند ہے جوایک پھول کوکھلانےکےلئے پورے یونیورس کومتحرک کرسکتا ہےاوروہ ایسا ہرآن کررہاہے۔ یہ اس کی قدرت کی نشانی ہے۔ قرآن میں ہے ان اللہ علی کل شئی قدیر، یعنی بے شک اللہ ہرچیزپرقادرہے۔ زمین پرکسی پھول کا کھلنا گویا قرآن کے اسی بیان کاعملی اعلان ہے۔
آدمی اگرسنجیدہ ہواورپوری سنجید گی کےساتھ کسی پھول کوکھلتا مسکراتا ہوادیکھےتووہ پکاراٹھے گا: میراخدا پھولوں کا خدا ہے۔ میراخداخوشبوکاخدا ہے، میراخدارنگوں کا خدا ہے۔ میراخدا زمین وآسمان کاخدا ہے۔ میراخدا پورے یونیورس کاخدا ہے۔
My God is God of flowers, my God is God of scent, my God is God of colours, and my God is God of the entire Universe

قرآن میں اسی حقیقت کا اعلان ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا آسمان کی چھت بنائی،اوپرسے پانی برسایا اوراس کے ذریعہ سے ہر طرح کی پیدا وار نکال کرتمہارے لئے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہوتو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل مت ٹھہرائو" 2:22) (

جمعرات، 8 اگست، 2013

The message of Eid

عید کا پیغام
مسلمانوں کی اصل دوعید یں ہیں۔ ایک عید الفطراوردوسری عید الضحی۔ رمضان کے مہینہ میں ایک ماہ تک روزہ رکھنے کے بعد مسلمان جوتہوارمناتے ہیں اسےعیدالفطرکہاجاتاہے۔ مسلمان قمری کیلینڈر کے حساب سےعید مناتے ہیں اسی لئےعید کا تعین چاند پرہوتا ہے۔ رمضان کے پورے مہینہ میں روزہ رکھنے کے بعد مسلمان آسمان کی طرف سراٹھا کرچاند دیکھتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ان کا معاملہ آسمان سے وابستہ ہے۔ انھیں اپنے ہرمعاملہ میں خدائی احکام کی طرف دیکھنا ہے۔ انھیں دنیا کابن کرنہیں رہناہے۔ انھیں آخرت کا بن کررہنا ہے۔ اسی طرح انہیں نیچے کی طرف نہیں دیکھنا ہےانھیں اوپر کی طرف دیکھنا ہے۔
عید سے پہلے ضروری ہے کہ مسلمان صدقہ اورفطرہ نکال کرعید گاہ میں آئیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسم نے فرمایا  جو فطرہ نہ نکالے وہ میری عیدگاہ میں نہ آئے۔
صدقہ فطرکاحکم: صدقہ فطرہرمسلمان پرفرض ہے حضرت عمر رضى الله عنه سے روايت ہے۔
"رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نےصيام رمضا ن سے فارغ ہونے پرہرمسلمان پرصدقہ فطرفرض قرارديا خواہ کوئی آزاد ہو ياغلام‘مرد ہو يا عورت ‘ چھوٹا ہو يا بڑا“۔(متفق علیہ)

عید کی نمازسے قبل مسلمان فطرہ نکالتے ہیں۔ یہ اس بات کاعملی اظہارہے کہ اس دنیا میں مسلما نوں کودینے والی کمیونٹی بن کررہناہے۔ انھیں ہرحا ل میں اپنا ہاتھ اونچارکھنا ہے۔ انھیں اس زمین پرخیرامت بن کررہنا ہے۔ انھیں اپنے خول میں نہیں جینا ہے۔ انھیں اپنے خول سے نکل کرباہرکے ماحول میں قدم رکھنا ہے اورمعذوروں اورحاجتمندوں کی ہرممکن مدد کرنا ہے۔ صدقہ فطرکا ایک عظیم پہلو یہ بھی ہے کہ سماج کا ہرشخص عید کی خوشیوں میں شامل ہوجائے۔
عید کی نمازکے لئے روانہ ہوتے ہوئے مسلمان تکبیر کہتے ہیں۔ وہ تکبیریہ ہے :  اَللّٰہُ اَکبَرُ اَللّٰہُ اَکبَرُ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ .اَللّٰہ اَکبَرُ اللّٰہُ اَکبَرُ وَلِلّٰہِ الحَمدُ
"یعنی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ ساری تعریف اللہ ہی کےلئے ہے۔"
اس کلمہ میں ہردوسری چیز کی نفی ہے۔ یعنی مال بڑانہیں ہے۔ عہدہ بڑا نہیں ہے۔ کنبہ اورقبیلہ بڑا نہیں ہے، جس پرکہ آدمی اتراتا اورتکبرکرتا ہے۔ یہ کلمہ مسلمانوں کے اندر یہ اسپریٹ پیدا کرتی ہے کہ اللہ بڑا ہے۔ اللہ بڑا کی سوچ انسان میں عجزاورانکساری پیدا کرتی ہےاوریہی چیزخدا وند کو اپنے بندوں سے مطلوب ہے۔ انسان جب بولتا ہے کہ اللہ بڑاہےتوگویا وہ اسی وقت اپنی ذات کی تصغیرکررہا ہوتا ہے۔ وہ اپنے آپ کوغروراورتکبرکی نفسیات سے نکال رہا ہوتا ہے۔ یہ کلمہ مسلمانوں کو یاد دلا تا ہے کہ انھیں تکبراورسرکشی کی روش نہیں اپنا ناہے۔ انھیں عجزاورانکساری کی روش پرچلناہے۔
مسلمان عید گاہ میں پہنچ کرعید کی دورکعت نمازپڑھتے ہیں۔ پھرایک دوسرے سے بغل گیرہوتے ہیں اوردوست واحباب کو سوئیاں یا مٹھائیاں کھلاتے ہیں۔ وہ بچوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ یہ عمل اس بات کا اعلان ہے کہ مسلمانوں کوحقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی پورا خیال رکھنا ہے انھیں سماج اورسوسائٹی کا ہوکررہنا ہے۔ انھیں اپنے ملک وہ ملت کی تعمیر میں اپنا کردارادا کرنا ہے۔