منگل، 30 جولائی، 2013

From Ur to Kedarnath

عراق کے شہر ار سے اترا کھنڈ کے کیدارناتھ تک

محمد آصف ریاض
جون کےمہینہ میں ہندوستان کی پہاڑی ریاست اتراکھنڈ میں تباہ کن سیلاب آیا۔ ہرطرف تباہی کامنظرتھا۔ آسمان سے بجلیاں گررہی تھی۔ پہاڑکی چٹانیں کھسک رہی تھیں۔ بادل پھٹ رہے تھےاوربستیاں غرق ہورہی تھیں۔ اس سیلاب کی زد میں آکرہزاروں لوگ مارے گئے۔ درجنوں بستیاں غرق آب ہوئیں۔ سیلاب کا حملہ اتنا شدید اورمنصوبہ بند تھا کہ آدمی کے لئے جان پچانا مشکل تھا۔ سیلاب نے شہرکی مورچہ بندی کررکھا تھااورگائوں اورشہروں کےتقریباً پانچوسوراستےکاٹ دئےتھے۔ کوئی شخص نہ باہرنکل سکتاتھا اورنہ اندرداخل ہوسکتا تھا۔ لوگ جان بچانے کے لئے پہاڑوں پرچڑھ رہےتھےاوروہاں آسمان کا پانی انھیں نگل رہا تھا پھرجب وہ بھاگ کرزمین پرآتےتویہاں انھیں زمین کا پانی غرق کررہا تھا۔ اس سیلاب کی زد میں آکراترکاشی، کیدارناتھ اوررودرپریاگ کےعلاقے پوری طرح تباہ ہوگئے۔
کیدارناتھ
کیدارناتھ کومندروں کاشہرکہاجاتاہے۔ یہاں ہندوستان اوردنیابھرکےعقیدتمند آتےرہتے ہیں۔ یہ شہرسیلاب کی زد میں آکرپوری طرح تباہ ہوگیا۔ ہزاروں لوگ مارے گئےاورتقریباً تمام دیوی دیوتااس سیلاب میں غرق ہوگئے۔ البتہ ان میں کا ایک بڑابچ گیا۔ یعنی کیدارناتھ مندرکا بت محفوظ رہا۔ لیکن اس حالت میں کہ وہاں سینکڑوں ٹن ملبہ جمع تھا۔
لوگوں کا تبصرہ
لوگوں نےاس تباہ کن واقعہ پرکئی قسم کےتبصرے کئے۔ کچھ لوگوں نے اسے ریج آف مائونٹین یعنی پہاڑ کاغصہ کہا تو کچھ لوگوں نے اسے ریج آف نیچر کا نام دیا۔ کچھ لوگوں نے اس کے لئے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ لیکن حیرت انگیزبات یہ ہے کہ کسی نے بھی اس ہولناک واقعہ کے لئے دیوتائوں کوذمہ دارنہیں ٹھہرایا۔ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ چونکہ اس تباہ کن حملہ میں سب سے بڑے دیوتابچ گئے ہیں اس لئے ان کا دیوتا ہونا ثابت ہوا۔

میراجواب
دیوتااس لئے نہیں بچ گئے کیونکہ وہ اپنے آپ کوبچانے کی صلاحیت رکھتےتھے۔ اگروہ اپنے اندراس کی صلاحیت رکھتے تووہ ضروراپنے شریک دیوتائوں کوبھی بچا لیتےاوروہ انھیں بھی بچالیتے جوان کی پرستش کے لئے ملک کے دوردرازعلاقوں سے مصیبت  اٹھاکرآئے تھے، جن میں بچے بوڑھے اورعورتیں سبھی شامل تھے۔ اوراگر اسی بڑے دیوتانےسب کوڈوبایا تویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی دیوتااپنے ہی شریک اورفولورکوتباہ کردے۔ کوئی بادشاہ اپنےہاتھوں سے اپنی بادشاہت کوتباہ نہیں کرتا۔ پھردیوتا خود اپنے ماتحت  دیوتائوں کوکیوں تباہ کرنے لگے؟
ان میں کا سب سے بڑا اس لئے بچا لیا گیا تا کہ آپ ان سے پوچھیں کہ اے دیوتا، جب لوگ ڈوب رہے تھے اوران پر زمین وآسمان کی طرف سے تابڑ توڑحملے ہورہےتھےتوآپ کہاں تھے؟ لوگوں کی بات چھوڑئے، جب خود آپ کے شریک دیوتاڈوب رہے تھے توآپ انھیں بچانے کے لئے کیا کررہے تھے؟
دیکھئے وہ کیا جواب دیتے ہیں؟ وہ کوئی جواب نہیں دیں گے۔ کیونکہ وہ بت  ہیں  وہ دیوتا نہیں  ہیں۔ وہ آپ کی اچھائی برائی کے مالک نہیں ہیں۔ اگروہ آپ کی اچھائی اوربرائی کےمالک ہوتے تووہ ضروراپنی اورآپ کی مدد کوآتے۔

عراق کے شہرارمیں ابراہیم کاواقعہ
آج سے چارہزارسال قبل عراق کا قدیم شہراربھی اتراکھنڈ کی طرح دیوی دیوتائوں کا شہربناہواتھا۔ یہاں لوگ دوردرازسے بتوں کی پوجاکرنےآتے تھے۔ یہاں ہرسال میلہ لگایا جا تا تھا۔ اوریہ لوگوں کے لئے کمائی کا ایک بہترین ذریعہ بن گیا تھا۔ حضرت ابراہیم کے والد بھی بت بناتے تھے اورانھیں شہروں میں فروخت کرکے پیسہ کماتے تھے۔ ابراہیم نےانھیں سمجھا یا اورکہا کہ آے میرے باپ جنھیں آپ اپنے ہاتھوں سے بناتے ہیں وہ دیوتا کیوں ہوگئے؟
ابراہیم نےلوگوں کوسمجھا ناشروع کیا کہ یہ دیوتاجنھیں تم خود اپنے ہاتھوں سے بناتے ہووہ تمہاری اچھائی اوربرائی کے مالک نہیں ہیں۔ لیکن برسوں کی کنڈیشننگ کی وجہ سے لوگوں کے دماغ میں بتوں کاخوف بیٹھ گیاتھا۔ حضرت  ابراہیم نے اس خوف کوختم کرنے کےلئے ایک دن چند چھوٹے بتوں کوتوڑدیا اوران میں جوبڑاتھا اسے سلامت چھوڑدیا تاکہ  لوگوں  پر بتوں  کا بت  ہونا  کھل جائے۔ لوگوں نے پوچھا، تم نے ہمارے بتوں کے ساتھ یہ کام کیا ہے اے ابراہیم؟
ابراہیم نے جواب دیا مجھ سے کیوں پوچھتے ہوبتوں کے بڑے ابھی باقی ہیں ان سے پوچھ لو۔ لوگوں نے کہا کہ یہ بت ہیں ابراہیم یہ بولتے نہیں۔ ابراہیم نے جواب دیا پھران کی پرستش کیوں کرتے ہوجونہ بولتے ہیں نہ سنتے ہیں اور نہ ہی تمہارے کام آسکتے ہیں۔ پہلے تو لوگ شرمندہ ہوئے پھران کے بڑوں نے انھیں مشتعل کیا کہ اپنے بتوں کی مدد کروانھیں بچائو۔ لوگوں نے ابراہیم کی بات پرسنجیدگی سےغورکرنے کے بجائے اپنے بڑوں کی بات کو پکڑ لیا اور ابراہیم کوجلانےکا منصوبہ بنانے لگے۔
حضرت ابراہیم خدا کے بھیجےہوئے پیغمبرتھے۔ عراق کے شہرارمیں خدا وند نے ابراہیم کومداخلت کے لئے چنا تھا۔خدا وند ابراہیم کےذریعہ سے لوگوں کے دل و دماغ کو بدلناچاہتا تھالیکن بجائے اس کے کہ لوگ اپنا دل دماغ بدلتےاورابراہیم کےسنجیدہ پیغام پرغوروخوض کرتے انھوں نے نعرہ لگانا شروع کردیا کہ بتوں کی مدد کرواورابراہیم کوجلا دو۔

خداوند کا پیغام
عراق کے شہرارمیں خداوند نے اپنے پیغمبرکے ذریعہ مداخلت کرایا اوراب چونکہ کوئی پیغمبرآنے والا نہیں اس لئے خدا وند نے کیدارناتھ میں خود برارہ راست مداخلت کوضروری سمجھااوران میں ایک بڑے کوچھوڑکرسارے دیوی دیتائوں کوغرق کردیا تاکہ لوگ اس بڑے سے پوچھیں کہ اگرتم دیوتا تھے تواس تباہی کے وقت کیاکررہے تھے؟ تم نہ اپنا بچائوکرسکے اورنہ ہمارے بچوں کاتوپھرتم دیوتا کس طرح ہوسکتےہو؟ ہم تمہاری پرستش سے باز آئے۔ ابراہیم کے واقعہ سے خدا وند کا منشا یہی تھا اورکیدار ناتھ کے واقعہ سے بھی خدا وند یہی چاہتا تھا۔
لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ لوگوں نے نہ ارکےواقعہ سےکوئی سبق لیااورنہ کیدارناتھ واقعہ سے کچھ سیکھا۔ وہاں بھی لوگوں نے بتوں کی تباہی کے بعد یہی نعرہ لگایاکہ بتوں کی مدد کرواورانھیں پھرسےان کی پوزیشن پرلائواوریہاں بھی لوگ یہ نعرہ لگا رہے ہیں کہ بتوں کوان کی پوزیش پرایستادہ کروان کی مدد کرو۔
توجوخود اپنی پوزیشن طے نہیں کرسکتےاوراپنی پوزیشن کے لئے آپ کے محتاج ہیں،وہ آپ کے دیوتا کس طرح ہوسکتے ہیں؟ بتائوجوپوزیشن طے کرنے والاہے وہ بڑاہےیاجس کی پوزیشن طے کی جارہی ہے وہ؟ صحیح بات یہ ہے کہ بتوں کی پرستش انسان کی خود اپنی تذلیل ہے۔

پیر، 8 جولائی، 2013

Self help


اپنے دانہ کوپودا بنا ئیں اورپوداکوتناوردرخت


محمد آصف ریاض

جون 2013 کی شام ایک نوجوان ملاقات کے لئےآئے۔ وہ پٹنہ کےرہنے والے ہیں اورنوئیڈا میں گزشتہ پندرہ سالوں سے رہ رہے ہیں۔ ان کی عمرتیس سال سے زیادہ ہوچکی ہے لیکن اب تک وہ کوئی قابل قدرکارنامہ انجام نہیں دے سکے ہیں۔

بات چیت کے دوران انھوں نے اپنے گھروالوں کی شکایت کی۔ ان کاکہنا تھا کہ گھروالوں نے ان کی مدد نہیں کی اس لئے وہ ناکام ہوگئے۔ میں انھیں پہلے سے جانتا ہوں ۔ میں نے انھیں بتایا کہ آپ کے دوسرے بھائیوں کی بھی مدد نہیں کی گئی تھی لیکن وہ توکامیاب ہوگئے۔ میری اس بات پروہ سٹپٹا کررہ گئے۔

آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی معاملہ میں کوئی عذرپیش نہ کرے ہرچند کہ اس کے پاس بیان کرنےکےلئےبہترین عذرہو
Do not use any excuse even if you have a good one

میں نےانھیں بتایاکہ اس دنیا میں مدد اسی کوملتی ہےجویہ ثابت کرسکےکہ اگراس کی مدد کی گئی تووہ مدد کرنے والے کومزید اضافہ کے ساتھ لوٹائے گا۔ میں نے انھیں بتایاکہ آپ اپنے عمل سے اپنی افادیت ثابت نہ کرسکے بلکہ الٹا آپ نے لوگوں پریہ تاثرچھوڑاکہ اگرآپ کی مدد کی گئی تومدد کرنے والے کوشرمندگی اٹھانی پڑے گی۔


کسان اور دانہ

کسان دانے کی مدد کرتا ہے۔ لیکن کب؟ جبکہ دانا اپنے آپ کوپوداکی شکل میں نمودارکرنےاورکسان پریہ تاثرچھوڑنے میں کامیاب ہوجائے کہ اگراس کی مدد کی گئی تووہ کسان کے لئے پھل لائے گا، اسے سایہ دے گا، اس کے لئے آکسیجن تیارکرے گا اوراسے زندگی کاسامان فراہم کرائے گا۔ پودے کی اس یقین دہانی کے ساتھ ہی کسان ایکٹیوہوجاتا ہے۔ وہ اس کے لئے پانی کااہتمام کرتاہے۔اس کی صفائی کااہتمام
 کرتاہے، اسے کوئی بیماری نہ لگ جا ئے اس کے لئے دواﺅں کا انتظام کرتا ہے۔ وہ اس کی نگرانی کرتا ہے اوراسے درخت بننے میں ہرممکن مدد فراہم کرتاہے۔ وہ اس پرجان اور مال لگاتاہے۔ وہ اس کی پر ورش کرتا ہے۔

لیکن یہ مدد پودے کواس وقت ملتی ہےجبکہ پودااپنے کسان پراپنی افادیت کوثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے اورجب کوئی پودا اپنی افادیت ثابت نہیں کر پاتاتواس پودا کے متعلق کسان کاردعمل بالکل دوسراہوتا ہے۔ یعنی کسان اسے اکھاڑکردور پھینک دیتا ہے۔

کسان بیج لگاتاہے اوروہ بیج پودے کی شکل میں نمودارہوتا ہے تواس کی قدرکی جاتی ہے اوراگروہ بیج پودا کی شکل میں نمودارنہ ہوتوکسان پوری کھیتی پرہل چلا دیتا ہے اورپھرنیا بیج لگاتاہے۔

 یہی حال کسی انسان کا ہے۔ اگرانسان دانےکی طرح اپنی افادیت ثابت کرنے میں کامیاب ہوجائے توضروراس کی قدرکی جائے گی اوراگروہ ناکام ہوجائے توبعید نہیں کہ ناکارہ دانے کی طرح اس پربھی ہل چلا دیاجائے۔

کسان کی مدد کے حصول کے لئے دانے کواپنی افادیت ثابت کرنی پڑتی ہے، اسی طرح کسی کی مدد پانے کے لئے انسان کواپنی افادیت کا ثبوت دینا پڑتا ہے۔ کسی سے مدد کے حصول کااس دنیا میں یہی عملی تقاضاہے جولوگ اس عملی تقاضے کوپورانہ کرسکیں ان کاانجام اس دانے کی طرح ہوگاجواپنے آپ کوپودا نہیں بناپاتا اوراکھا ڑکر پھینک دیاجاتاہے۔ ایسے لوگوں کونہ گھرسے مدد ملتی ہے اورنہ باہرسے۔
یادرکھئے،جس طرح ناکارہ دانے کی مدد نہیں کی جاتی اسی طرح ناکارہ لوگوں کی بھی مدد نہیں کی جاتی۔ مدد تو صرف اسی کی ہوتی ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں، جو اپنے دانہ کو پودا بناتے ہیں اور پودا کو تناوردرخت۔