اب آپ کے پاس کوئی عذر نہیں بچتا
محمد
آصف ریاض
کل شیشے
کے گلاس میں ناریل کا پانی نکال کرمیری طرف بڑھا یا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ پانی
بالکل شفاف تھا۔ میں اس پانی کو دیکھ کر تھوڑی دیر کے لئے سکتے میں آگیا۔ سوکھی ہوئی
لکڑیوں کے درمیان سے پاکیزہ اور اس قدرشفاف پانی کانکلنا میرے لئے ایک معجزہ سے کم
نہیں تھا!
مجھے،ناریل
کےاس پانی کو دیکھ کر حضرت موسیٰ کا وہ معجزہ یاد آگیا جس کا ذکر قرآن کے سولہویں پارہ
میں ہواہے۔ حضرت موسیٰ کو حکم ہوا کہ وہ فرعون کے پاس جائیں،اسے سمجھائیں اور اللہ
کا خوف دلائیں کہ و ہ سرکش ہوگیا ہے۔
جب موسیٰ
اپنے بھائی ہارون کے ساتھ فرعون کے پاس اللہ کا پیغام لے کر پہنچے تو اس نے ا پنے حوارین
کو جمع کر کے کہا کہ "یہ دونوں محض جادو گر ہیں۔اوران کا پختہ ارادہ ہے کہ اپنے
جادو کے زور سے تمہیں تمہارے ملک سے نکال باہر کریں،اور تمہارے بہترین مذہب کو بر باد
کردیں،توتم بھی اپنا کوئی داﺅ اٹھا نہ رکھو،صف بندی کر کے آگے بڑھو،جوآج غالب آگیا،وہی
بازی لے گیا"!مقابلہ آرائی کے وقت جادو گروں نے کہا موسیٰ
پہلے تم یا پہلے ہم!
موسیٰ
نے جواب دیا پہلے تم ہی اپنے کر تب دکھا لو۔انھوں نے اپنی رسیوں اور لکڑیوں کو زمین
پر ڈال دیا، موسیٰ کو لگا کہ لکڑیاں اوررسیاں ان کے جادوکے زورسےدوڑ بھاگ رہی ہیں۔
پس موسیٰ اندر سے ڈرگئے!
خدا
کا حکم ہوا ڈرومت موسی، والق مافی یمینک تلقف ماصنعو، جو تمہارے دائیں ہاتھ میں ہے،اسے
زمین پر ڈال دو،وہ ان کی تمام کاریگری کو نگل جائے گا۔ موسی نے اپنے ہاتھ کی لکڑی زمین
پر ڈال دی اور وہ سانپ بن کر ان کے کرتبوں کو نگل گیا۔ موسیٰ کا یہ معجزہ دیکھ کرتمام
جادو گر سجدہ میں گر پڑے۔اور پکار اٹھے،ہم تو موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لائے۔
فرعون
نے کہا میری اجازت سے پہلے ہی تم ایمان لےآئے !میں تمہارے ہاتھ پاﺅں الٹے سیدھے کٹوا
کر کھجور کے تنے پر لٹکوا دوں گااورتمہیں معلوم ہوجائے گا کہ کس کی مار زیادہ سخت اور
زیادہ دیر پا ہے!جا دو گروں نے جواب دیا، ناممکن کہ ہم موسیٰ کے خداپرتمہیں ترجیح دیں۔
حضرت
موسیٰ کا معجزہ جادوگروں کے لئے ایک حیران کن تجربہ تھا۔ اس تجربہ نے ان کے سوچنے کے اندازکو یکلخت بدل دیا۔ اب فرعون ان کا کنسرن نہیں رہا بلکہ خداوند ان کا سب سے بڑا
کنسرن بن گیا۔
گلاس میں ناریلکاپانی کو دیکھ کر میں سوچنے لگا
خدا وند نے موسی کے ذریعہ جومعجزہ ظاہر کیا تھا اس نے جادو گروں کو یکلخت بدل دیا تھا۔
موسیٰ
کا معجزہ کیا تھا؟ موسی نے فرعون اورجادو گروں کے سامنے جو معجزہ کیا تھا،اس میں ایک
لکڑی سانپ میں تبدیل ہوگئی تھی،اس واقعہ نے جادو گروں کی زندگی میں بھونچال مچا دیا
تھا۔ ان کے ذہن و دماغ پر اسٹوننگ ہوئی تھی اور پھر ان کے سوچنے کا زاویہ ہمیشہ کے
لئےبدل گیا تھا۔
آج ہمارے
سامنے بھی یہ معجزہ ہورہا ہے اور نہایت تواتر کے ساتھ ہو رہا ہے لیکن کوئی بھی اس سے
سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
آج بھی
لکڑیاں پانی میں تبدیل ہورہی ہیں۔ لکڑیاں آگ بن رہی ہیں،لکڑیاں شادابیاں اگل رہی ہیں،
لکڑیاں ہمارے لئے آرام و راحت کا سبب بن رہی ہیں،یہ معجزات نہایت تواتر کے ساتھ ہورہے
ہیں لیکن آج کسی کی زندگی میں بھونچال نہیں آرہا ہے۔ موسیٰ کے اس معجزہ کے مقابلہ میں
کوئی جادو گرنہیں ہے،سب کے سب فرعون بنے ہوئے ہیں۔
ایسا
کیوں ہے؟
اصل
بات یہ ہے کہ جادو گروں نے معجزہ کو ایک بار ہی دیکھا تھا اس لئے ان کا چونک اٹھنا
لازمی تھا۔ آدمی کی نفسیات یہ ہے کہ جب وہ کسی حیرت انگیز واقعہ کو پہلی بار دیکھتا
ہے تو وہ چونک اٹھتا ہے،لیکن جب یہی حیرت انگیز واقعہ بار بار ہو تو وہ اس میں اپنے
لئے کوئی سبق نہیں پاتا۔ وہ اس سے اپنے لئے تفکر کی غذا حاصل نہیں کرتا۔ وہ اس کے تئیں
بہرا،گونگا،اور اندھا بن جا تا ہےاوریہی انسان کا جرم ہے۔
انسان
کا جرم!
حکومت
جب کوئی نیا قانون لاتی ہے، تو وہ اس کاخوب چرچا کرتی ہے تاکہ قانون سے متعلق نکات
ہر شخص پر ظاہر ہوجائے اور کسی کے لئے کوئی اکسکیوز باقی نہ رہے ۔
مثلاً
سال کے آخر میں حکومت ٹیکس سے متعلق بہت سارے اشتہارات دیتی ہے جس میں بتا یا جاتا
ہے کہ ٹیکس چوری کرنے والوں کو کیا سزا ہو سکتی ہے! اس جانکاری کے باوجود اگر کوئی
شخص ٹیکس چراتا ہے، تو گویا وہ قانون کی نظر میں اپنے آپ کو مجرم قرار دیتا ہے۔اورقانون
کے خلاف بغاوت کرتا ہے۔
خدا
اپنے معجزات کو ہر روز ظاہر کر رہا ہے تا کہ کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اے ،خداوند! تو
نے جا دو گروں کی رہنمائی کے لئے معجزہ ظاہر کیا تھا، لیکن میری رہنمائی کے لئے کوئی
معجزہ نہ کیا،اسی لئے ہم گمراہ ہوئے۔ اب انسان کے پاس کوئی اکسکیوز نہیں بچتا۔انسان
نے خدا کے معجزہ کے مقابلہ میں جادو گر بننے کے بجائے فرعون بن کر اپنے آپ کو مجرم
قرار دے دیا ہے۔ انسان نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ جنت کا طلبگار نہیں بلکہ دوزخ کا
طلب گار ہے۔ وہ پھولوں کا نہیں کانٹوں کا طلبگار ہے۔