بدھ، 16 جنوری، 2019

Putting the next step in new water


Mohammad Asif Reyaz
In past Brahmins used to live in parts of Kashmir. They were of many sections (gotras), including Kaul, Bhat, Raina, and Saproo etc.

The first Prime Minister of India Pandit Nehru was from Kaul section, while the great Urdu poet Allama Iqbal who is also called Shaire Mashriq was from Saproo gotra. It is said that Saproos are of Iranian descendants. They were called Shahpore in Iran migrated to India and called Saproo.

The great Urdu poet Allama Iqbal has written that his father used to say that “Saproos’ are the descendants of those Kashmiri Brahman families who were first to learn Persian and other Islamic studies, during the Muslim rule. ‘Saproo means a person who is first to learn a new thing’’۔

Now back to the point! People in our country are frequently seen asking questions like why Brahmins are always in the leading role. Why they lead instead of being led?  Before asking this question I think one should know that to lead society or a nation one requires knowledge. He who keeps increasing his knowledge is better fitted to lead a nation or a society. Since Brahmins are able to do this they are always in the leading role. If you take note, you will get the fact that Brahmins are always ahead in learning anything that is new.

History suggests that there was a time when Muslims were leading in acquiring knowledge and hence leading the world. They were so fond of learning new things that they used to put their lives at risk! Nothing seemed to stop them from learning and acquiring a new knowledge!

An event from history

In Andalusia (Spain) there used to live a man known as Abbas Ibn Firnas. He was an inventor, physician, chemist, engineer, musician and Arabic-language poet.
Some seven centuries after his death, the Algerian historian Ahmed Mohammed al-Maqqari wrote a description of Firnas that included the following:

“Among other very curious experiments which he made, one is his trying to fly. He covered himself with feathers for the purpose, attached a couple of wings to his body, and, getting on an eminence, flung himself down into the air, when according to the testimony of several trustworthy writers who witnessed the performance, he flew a considerable distance, as if he had been a bird, but, in alighting again on the place whence he had started, his back was very much hurt, for not knowing that birds when they alight come down upon their tails, he forgot to provide himself with one”.

This was the spirit of learning! Muslims in the past were always ready for doing new experiment even death could not deter them from doing this. In the word of an Urdu poet, they were always ready to put their feet in new waters. Agla Paun Nae Pani Main!


منگل، 26 جون، 2018


ترکوں نے صدر اردوگان کو ووٹ کیوں دیا ؟

محمد آصف ریاض

1- اردوگان سے پہلے ترکی کا حال یہ تھا کہ وہاں جو بھی وزیراعظم منتخب ہو تا، فوجی آمرین مغربی طاقتوں کی شہ پراسے معزول کرکے تختہ دار پرچڑھا دیتے تھے۔ اربکان تازہ مثالوں میں سے ایک ہیں۔

2- صدر اردوگان نے بغاوت کی اس روایت کا خاتمہ کیا اور ملک میں جمہوری قدروں کو فروغ دیا۔ فوجی سرکشی کو کچل دیا۔

3- مذہبی آزادی: اتاترک کے دور میں اسلامی شعار پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ مثلا کوئی مسلم خاتون حجاب نہیں باندھ سکتی تھی، اسکولوں میں لڑکیوں کے لئے اسکرٹ پہننا لازمی قرار دے دیا گیا تھا۔ حجاب باندھنے پر جرمانہ دینا پڑتا تھا۔ اردوگان نے آکراس جبر کا خاتمہ کیا اور ملک میں مذہبی آزادی کا ماحول قائم کیا۔

4 - اردوگان سے پہلے ترکی عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی وحشیانہ زنجیر میں جکڑا ہوا تھا اورعالمی طاقتوں کی مداخلت کا اڈہ بن چکا تھا۔ اردوگان نے نہ صرف یہ کہ ان تمام قرضوں کو چکا یا بلکہ ان عالمی اداروں کو قرض بھی دیا۔

5- اردوگان سے پہلے تاریخی شہراستنبول مفلسوں کا شہر بنا ہوا تھا، اردوگان نے اسے دنیا کا بہترین شہر بنا یا اور استنبول کی تاریخی عظمت کی واپسی کی۔

6 - ترکی کا جائے وقوع بہت اہم ہے۔ یہ ایشیا اور یوروپ کے درمیان پل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اردوگان نے حکومت میں آکرہائی ویز، پل ، ریلویز اور واٹر ویز کے ذریعہ ایشیا کو یوروپ سے مربوط کر دیا۔

7- آذربائجان سے ٹرین چلا کر جارجیا ہوتے ہوئے ترکی پار کر کے اسنبول کے ذریعہ ٹرین کو بلغاریہ اور رومانیہ تک پہنچا دیا۔ اس ریلوے لائن کو جلد ہی یوکرین، فرانس اور جرمنی تک توسیع دیا جائے گا۔ اس لائن کو Baku–Tbilisi–Kars لائن کہا جا تا ہے۔

8 - اردوگان نے استنبول میں دنیا کا سب سے بڑا ایئر پورٹ بنایا، جسے اسی ہفتہ انیگوریٹ کیا گیا ہے۔

9 - آذربائجان کی گیس کو پائپ لائن کے ذریعہ جارجیا کے راستے استنبول پہنچا یا، جہاں سے اسے یوروپ کو سپلائی کیا جائے گا۔ اس طرح روس کی گیس پر ترکی کے انحصار کو کم کیا اور یوروپ کو جوکہ روس سے گیس خریدتا تھا اسے ایک اور متبادل آذربائجان کی صورت میں پیش کیا۔

10 - ون بلٹ ون روڈ کے ذریعہ یوروپ کو چین سے جوڑا۔ یہ شاہراہ ترکی سے جارجیا اورآذربائجان یعنی بحیرہ اسود تک تیار ہوچکا ہے اور ترکی نے حال ہی میں ترکمانستان اورافغانستان سے چین سے جوڑنے والی شاہرہ کی تعمیر کا معاہدہ کیا ہے جسے بہت جلد مکمل کر لیا جائے گا۔

11 - اردوگان سے پہلے ترکی، فوجی سازو سامان کے لئے مغربی طاقتوں کا محتاج تھا، اب ترکی 70 فیصد فوجی ہتھیار خود بنا تا ہے۔

12- اردوگان سے پہلے ترکی کا کوئی بھی فوجی بیس ملک سے باہر نہیں تھا ۔ اب ترکی نے ملک سے باہر نصف درجن فوجی بیس تیار کر لیا ہے۔ ترکی کا سب سے بڑا فوجی بیس صومالیہ میں ہے۔ اس کے علاوہ قطر، شام، عراق، افغانستان اور سوڈان میں بھی ترکی نے فوجی بیس بنا لیا ہے یا بنا رہا ہے۔

13- عالمی امور میں ترکی کی دلچسپی۔ شام میں اسدی حکومت نے جب تشدد کی انتہا کی تو ترکی نے اپنی فوج کو سیریا میں گھسا دیا اور شمالی سیریا کو اپنی نگرانی میں لے لیا جس کی وجہ سے وہاں امن قائم ہو گیا اور اب رفتہ رفتہ سیریا امن کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عراق میں شیعی انتہا پسندوں کا زور توڑ نے اور وہاں توازن قائم کرنے کے لئے اپنی فوج داخل کی اور وہاں فوجی بیس بنا کر امن کی بحالی کو یقینی بنا یا۔

14- ترکی نے صدر اردوگان کی قیادت میں حالیہ دنوں فلسطین پر اقوام متحدہ کی دو میٹینگیں طلب کیں اور ووٹنگ کے دوران دونوں مرتبہ امریکہ اور اسرائیل کو شرمناک شکست سے دوچار کیا۔

15- اردوگان سے پہلے ترکی میں خصوصی اورعالم اسلام میں عمومی طور پر مغرب کی مداخلت جاری تھی۔ اردوگان نے اس مغربی مداخلت کو کم کرنے میں اپنا کر دار ادا کیا اور مغربی طاقتوں کے لئے ایک سرخ لکیر قائم کی۔

16 - میانمار کا قضیہ: میانمار میں انتہا پسند بدھسٹوں نے مسلمانوں پر یلغار کردیا۔قتل عام رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا ۔ اردوگان نے صحیح وقت پر مداخلت کی اور بہت کم وقت میں میانمار کو قتل عام سے روکنے میں کامیابی حاصل کی۔

17 - شام میں اسدی حکومت کی جبر سے جان بچا کر بھاگنے والے 40،00000 مہاجرین کو ترکی میں رکھا اور ان کے کھانے پینے،رہنے اور ان کے بچوں کے لئے پڑھنے کا بندوبست کیا۔

18- ترکی فلاح عامہ پرخرچ کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ پہلے یہ پوزیشن امریکہ کو حاصل تھی۔

19- روسی گیس کی ترسیل کے لئے ترکی ایک پائپ لائن بچھا رہا ہے جسے اسٹریم لائن کہا جا تا ہے۔

20 - اردوگان نے ترکی کو سیاحت کا مرکز بنا دیا ۔ اس سال وہاں 40 ملین سیاحوں کے پہنچنے کی توقع ہے۔

یہ فہرست بہت طویل ہے۔ تاہم یہاں صدراردوگان کی صرف 20 اہم حصولیابیوں کا ذکرکیا گیا ہے تاکہ عام لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آجائے کہ آخرترک صدر رجب طیب اردوگان پچھلے 15 سالوں سے ہرانتخاب میں کیوں جیت رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اردوگان کی یہ وہ حصولیابیاں ہیں جن کی وجہ سے ترک اور دوسرے ان سے محبت کرتے ہیں، اور بدقسمتی سے یہی وہ حصولیابیاں ہیں جن کی وجہ سے بہت سے لوگ اردوگان اور ترکوں سے نفرت کرتے ہیں۔

پیر، 24 جولائی، 2017

آر ایس ایس آپ کو نہیں ہرا سکتی البتہ آپ کی نادانی آپ کو ہرا سکتی ہے

محمد آصف ریاض
ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان ان دنوں ایک بات یہ پھیلا ئی جا رہی ہے کہ آرایس ایس مسلمانوں کو دلتوں سے پیچھےدھکیل دینا چاہتی ہے۔ وہ مسلمانوں کو دلتوں سے بد تر پوزیشن میں پہنچا دینا چاہتی ہے وغیرہ ۔ یہ بات ہندوئوں کے درمیان آرایس ایس کے لوگ پھیلا رہے ہیں اورمسلمانوں کے درمیان بیوقوف لوگ اس بات کوعام کررہے ہیں۔ ایسی بہت سی رپورٹیں سوشل میڈیا پر گشت کررہی ہیں۔
آئے سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیں کہ اگرواقعی آرایس ایس کا یہ منصوبہ ہے تو کیا یہ منصوبہ قابل عمل بھی ہے؟سب سے پہلی بات یہ کہ مسلمانوں کودلتوں سے پیچھے دھکیلنے کے لئے سارے ہندوئوں کو (جوایک سوکروڑ ہیں) ایک ہی جست میں آگے بڑھا نا ہوگا، یعنی انھیں خوشحال اورمالدار بنانا پڑے گا۔ کیا آرایس ایس کی حمایت والی مودی حکومت کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ تمام ہندوئوں کوخوشحال بنا دے؟ کیا ملک کی معیشت اس کی اجازت دے گی؟ کیا عالمی طاقتیں اس کو سپورٹ کریں گی؟

مزید یہ کہ ایک سو کروڑ ہندوئوں کو خوشحال بنانے کے لئےکم سے کم  پچاس سال تک سب کچھ حکومت کے فیورمیں ہونا چاہئے۔ یعنی ملک میں امن و امان قائم ہواورملک کوعالمی طاقتوں کی حمایت حاصل ہو۔ ملک کے سامنے کم سے کم 50 سال تک کوئی داخلی یا خارجی چیلنج نہ ہو۔ کیا یہ ممکن ہے؟ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ جب وزیراعظم مودی امریکہ کے دورے پرگئےاورآرایس ایس کے لوگوں نے وہاں بھارت ماتا کی جئے کا نعرہ لگا نا شروع کیا توامریکیوں کارسپانس کیا آیا! اوبامہ کی حکومت گئی اورٹرمپ حکومت میں آگئے۔ ٹرمپ نے حکومت میں آتے ہی لاکھوں ہندوستانیوں کو نوکری سے باہر نکال دیا۔
آج کی دنیا اس قدر انٹیگریٹیڈ  ہے کہ سب کا مفاد سب سے جڑا ہوا ہے۔ آج کسی بھی ملک کے لئےعملاً یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ (unilaterally) یعنی یکطرفہ طورپراپنے لوگوں یا اپنی قوم کو خوشحال بنا لے۔ اورمان لیجئے کہ بی جے پی – آر ایس ایس کی حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ یعنی وہ آئندہ پچاس سالوں میں سارے ہندوئوں کو خوشحال بنا دے گی تو پھریہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی حالت میں مسلمان کس طرح پچھڑ جائیں گے؟ جب خوشحالی کا دریا ہرطرف بہے گا توایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے دروازے سے کٹ کرگزر جائے؟ظاہرہے کہ جب پورا ملک خوشحال ہو جائے گا تو مسلمانوں کی بدحالی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
دوسری بات یہ کہ مسلمانوں کا موازنہ دلتوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان ایک عالمی کمیونٹی ہیں۔ ساٹھ ممالک میں مسلمان اکثریت میں ہیں اورحکومت کرتے ہیں۔ وہ دنیا کے زیادہ ترممالک میں بڑی اقلیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے برخلاف دلت صرف ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ہرچند کہ وہ اپنے آپ کو ہندو بتاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ اعلیٰ ذات کے ہندو انھیں ہندو نہیں مانتے۔
تیسری بات یہ کہ بلا شبہ تاریخی طور پردلت ہندوستان کےاصلی باشندے ہیں۔ بہت پہلے یعنی آریائی قوم کی ہندوستان میں آمد سے قبل وہ یہاں حکومت کیا کرتے تھے۔ لیکن جب سے آرین قوم نے انھیں زیرکیا تب سے آج تک یعنی گزشتہ تین ہزارسالوں میں بحیثیت قوم وہ کبھی ابھرنہیں سکے۔ آج بھی دلتوں کا حال یہ ہے کہ چاہے وہ کتنا ہی پڑھ لکھ جائیں برہمن واد کے سامنے آخرکارگھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ وہ نظریاتی طورپر برہمن واد کے غلبہ کو تسلیم کر چکے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ نظریاتی طورپربرہمن واد کے مقابلہ میں اپنی ہارتسلیم کر چکے ہیں۔ جب تک وہ اپنی اس نظریاتی ہارکوجیت میں تبدیل نہیں کرلیتےتب تک وہ بہ حیثیت قوم سرخرو نہیں ہو سکتے۔
یہ بات صحیح ہے کہ ڈاکٹربھیم رائو امبید کر، مہاتما جیوتیبا پھولے اورکانشی رام جیسے بڑے دلت رہنمائوں نے دلتوں کو برہمن واد کےغلبہ سے نکالنے کے لئے بڑی کوششیں کیں۔ تاہم دلت سماج اب بھی اس غلبہ سے نجات حاصل نہیں کرسکا ہے۔ دلت ابھی تک اپنی شناخت اپنی تہذیب اوراپنے مذہبی رسوم کو دریافت نہیں کر سکے ہیں۔ یہ دلت سماج کی سب سے بڑی کمزوری ہے اور یہی کمزوری انھیں بہ حیثیت قوم ابھرنے نہیں دے رہی ہے۔ البتہ یہی بات مسلمانوں کے بارے میں صحیح نہیں ہے۔ مسلمان پوری دنیا میں اپنی تہذیبی اورنظریاتی شناخت کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ معاشی طور پربھلے ہی کہیں کمزور پڑجائیں لیکن نظریاتی طورپرکہیں کمزورثابت نہیں ہوتے۔
صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں کو دلتوں سے پیچھے دھکیلنا یعنی انھیں 'سب سے پیچھے دھکیلنا' نہ حکومت کے بس میں ہے اور نہ ہی آر ایس ایس کے بس میں۔ یہ ان کی خواہش ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ''خواہش پریشاں'' ہے جو انھیں ہمیشہ پریشان کر تی رہے گی۔ قرآن میں مسلمانوں کو بتا یا گیا ہے:ام للانسان ما تمنا ؟ کیا انسان کے لئے(وہ سب کچھ ) میسرہے جس کی وہ تمنا کرتا ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔
دلت بنام مسلم
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آخرآرایس ایس کے لوگ یہ کیوں کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو دلت سے پیچھے دھکیل دیں گے؟ غالباً وہ ایسا اس لئے کہتے ہیں کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ ان کے ایسا کہنے سے دلت خوش ہو جائیں گے۔ اوروہ اپنے آپ کو ہندوازم کا حصہ بنانے پرراضی ہو جائیں گے۔ یہ دراصل پولا رائیزیشن کی ایک کوشش ہے۔ اس پولا رائیزیشن کےذریعہ وہ دلتوں میں پیدا ہونے والی تہذیبی، شناختی، سماجی، معاشی اورسیاسی  بیداری کو روک دینا چاہتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی وہ یہ چاہتے ہیں کہ دلت مسلمانوں سے ٹکرا جائیں۔
مسلمانوں کو کیا چیز ہرا سکتی ہے
مسلمانوں کو جو چیز ہرا سکتی ہے وہ کسی اور کی سازش یا خواہش نہیں ہے بلکہ یہ ان کی نادانی اوربےعقلی ہے جو انھیں کسی قوم کے مقابلہ میں زیر کر سکتی ہے۔ مسلمانوں کا اصل مسئلہ نا دانی کا مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کا حال آج وہی ہوگیا ہے جو دورزوال میں یہود کا ہوگیا تھا، جس کی نشاندہی کرتے ہوئے یہود کے ایک پیغمبر ہبککوک (Habakkuk) نے انھیں خبردار کیا تھا:
God will pour upon you the spirit of foolishness, and there will be no wise man among you
"خدا تمہارے اوپر نادانی کو انڈیل دے گا، تمہارے درمیان کوئی دانا آدمی نہ ہوگا جو تمہارے مسائل کو حل کر سکے۔"

پیر، 19 جون، 2017

ہندوستانی مسلمان اور مساجد ہند

محمد آصف ریاض

ہندوستان میں بے شمارمساجد ہیں۔ بہت سی مسجدیں مسلم حکومت میں بنائی گئیں ، جیسے دہلی کی شاہجہانی مسجد، مسجد بیگم پور، مسجد قوت الاسلام ، کھڑ کی مسجد، مسجدہ کوہنہ پرانہ قلعہ، دہلی ،  ادینہ مسجد، بنگال، تاج المساجد بھوپال، مکہ مسجد حیدرآباد، نگینہ مسجد آگرہ،آدھے دن کا جھونپڑا مسجد, اجمیر، وغیرہ ۔ بہت سی مساجد انگریزحکومت میں تعمیرکی گئیں اوربہت سی مساجد آزادی کے بعد بنیں۔

ہندوستان میں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کہیں کوئی مسجد تعمیرنہ ہو رہی ہو۔ رپورٹیں بتاتی  ہیں کہ ہندوستان میں تقریباٍ 3 سے 4 لاکھ چھوٹی بڑی مساجد ہیں۔ یہ مساجد ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ان میں کچھ شہروں، کچھ گاؤں، کچھ مضافات تو کچھ پہاڑ کی وادیوں میں اورکچھ ندیوں کے کنارے اورساحل سمندرپررونق افروز ہیں ۔

نوے کی دہائی میں ہندوستان میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے پورے ملک کو ہلا کررکھ دیا ۔ وہ واقعہ بابری مسجد کی شہادت کا واقعہ تھا۔ اس واقعہ نے ملک میں خیرسگالی اورہم آہنگی کے ماحول کوزہرآلود بنا دیا ۔ لیکن حیرت انگیز طورپر یہی وہ دہائی ہے جب ملک کے ہرطول وعرض، شہر، قصبے اور گاؤں میں بے شمار مساجد تعمیر کی گئیں ۔ نوے کی دہائی میں اتنی زیادہ مساجد تعمیر ہوئیں کہ ہم اسے بجا طورپر'مسجد کی دہائی' کہہ سکتے ہیں۔

1990 سے 2010 کے درمیان اتنی زیادہ مسا جد تعمیر ہوئیں کہ لوگ چوک چوراہے پر یہ کہتے سنے گئے کہ اب بہت ہوگیا۔  اب ہندوستانی مسلمانوں کو مسجد کی نہیں اسکول ، کالج اورلائبریری کی ضرورت ہے۔

ان بے شمار مساجد کی تعمیر کے با وجود بہت سے قصبے ،گائوں اورمضافات آج بھی مساجد سے محروم ہیں۔ ان میں وہ گائوں قصبے ، مضافات یا  کالونیاں  شامل ہیں جہاں کی آبادی نئی ہے یا جہاں بہت غریب مسلمان بودو باش اختیار کرتے ہیں۔

مساجد کی ضرورت کیوں 

مسلمانوں کے لئے مساجد روحانی سینٹرکی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہاں سے مسلمان روحانی غذا حاصل کرتے ہیں۔ جس طرح کوئی مسلمان اپنے جسم کی پرورش کے لئے فوڈ سینٹرسے کھانا حاصل کرتا ہے اسی طرح وہ روحانی غذا کے حصول کے لئےمسجد کا رخ کرتا ہے۔ مسجد دراصل سجدہ گاہ ہے۔ مسلمان مسجد میں یکسو ہوکرخدا سے رازو نیازکی باتیں کرتے ہیں۔ مسلمانوں پر روزانہ پنجگانہ نماز فرض ہے۔ یہ گویا خدا کو پانچ مرتبہ تھینکیو کہنے کا عمل ہے۔  انسان کی پوری زندگی کا انحصار خدا کی رحمت پرہے۔ انسان کا پیدا ہونا اوراس کی پر ورش تمام چیزیں خدا کے زیرانتظام ہوتی ہیں۔ مثلاً انسان خدا کی زمین پرچلتا پھر تا اور بودوباش اختیارکرتا ہے ، اسی طرح وہ خدا کے پانی سے سیراب ہوتا ہے،  خدا کے سورج سے روشنی حاصل کرتا ہے،  خدا کے پیدا کئے ہوئے نباتات سے وہ آکسیجن حاصل کرتا ہے۔  انسان ہر روز ان چیزوں کو مصرف میں لیتا ہے تو فطری طور پر اس کا دل شکرخدا وندی سے بھر جا تا ہے۔  اسی شکرخدا وندی کے احساس کو خدا کے سامنے رکھنے کے لئے وہ پانچ وقت ہرروزمسجد کا رخ کرتا ہے۔

قرآن کا ارشاد ہے:’’اللہ کی مسجدوں کے آباد کار تو وہی لوگ ہوتے ہیں جو اللہ اور روز آخرت کو مانیں اور نماز قائم کریں ،زکوٰۃ  دیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں"۔ (سورۃ التوبہ(18) دوسر ی جگہ ارشاد فرما یا : ’’مسجدیں اللہ کیلئے ہیں لہٰذا ان میں اللہ کے سوا کسی اور کو مت پکارو۔‘‘(الجن 18 )

مسلمان مسجد میں جاکر خدا کی عبادت کرتے ہیں ۔ ایک حدیث رسول کا  ایک حصہ اس طرح ہے:  قرة  عيني في الصلاة یعنی فرمایا  اللہ کے رسول نے  کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز کے بارے میں کیا جائے گا۔

مسجدیں اسلامی مساوات ، بھائی چارہ ، اخوت  ایثارو رواداری کا عملی نمونہ ہیں  ۔ مسجد میں غریب ،امیر، گورے ،کالے عربی عجمی سب ایک ساتھ ہی صف میں کھڑے ہوکر خدا کے آگے سر بسجود ہوتے ہیں۔  یہ عمل  وہ  دن  بھر  میں  پانچ  مرتبہ  دہراتے  ہیں ۔ اس عمل کے ذریعہ وہ یہ عہد لیتے ہیں کہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں کسی کے ساتھ تعصب پسندی کا رویہ اختیار نہیں کریں گے۔ وہ لوگوں کے ساتھ بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔ وہ خدا کی زمین پر کبرو نخوت کی روش اختیار نہیں کریں گے۔

مسجد چونکہ عبادت کی جگہ ہے اس لئے مسلمان جہاں بھی ہوتے ہیں وہاں ایک  چھوٹی یا بڑی مسجد  ضرور تعمیر کرتے ہیں۔  ہندوستانی مسلمانوں کواب بھی ملک کے مختلف گوشے میں مسجد کی ضرورت ہے ۔ اور وہ اس ضروت کی تکمیل کے لئے کوشش بھی کررہے ہیں ۔ لیکن کچھ لوگ مسجد کی تعمیرپران دنوں اپنی ناراضگی ظاہرکرنے میں لگے ہیں ۔ ان میں آر ایس ایس اور بجرنگ دل جیسی تنظیمیں سر فہرست ہیں۔

مسجد پر تنازعہ

گزشتہ دنوں دہلی کے سونیا وہارکالونی کے آمبے انکلیو میں ایک واقعہ گزرا۔  یہاں مسلمان ایک مسجد تعمیر کر رہے تھے لیکن 7 جون 2017 کو کچھ شر پسند عناصر نے اس زیر تعمیر مسجد کی دیواریں گرا دیں ۔ اسی طرح کا ایک واقعہ ہریانہ کے بللبھ گڑھ میں 2015 میں پیش آچکا ہے ۔ یہاں بھی کچھ شرپسند عناصر نے زیرتعمیرمسجد کومسمارکرنے کی کوشش کی اورمسلمانوں سے بھڑ گئے۔

اس طرح کے واقعات ملک کے مختلف مقامات پر پیش آتے رہتے ہیں لیکن اس معاملہ میں مسلمانوں کو ہر گز مشتعل نہیں ہونا چاہئے۔ کیوں کہ جو لوگ مساجد پر حملہ بولتے ہیں ان کا اصل مقصد مسلمانوں کو مشتعل کرنا ہی ہوتا ہے۔ وہ کچھ دنوں کے لئے مساجد کی تعمیر روکنے میں بھلے ہی کامیاب ہوجائیں لیکن  وہ ایسا نہیں کر سکتے کہ وہ مسجد کی تعمیر ہمیشہ کے لئے روک دیں کیونکہ ملک کا  آئین انھیں اس بات کی اجا زت نہیں دیتا۔ مسلمانوں کو اس معاملہ میں سڑک پراتر نے کے بجائے قانونی کاروائی کرنی چاہئے۔

ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ قوموں کی زندگی میں حالات بدلتے رہتے ہیں ۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ شاہ جہاں نے جس مسجد کو اپنے قلعہ کے سامنے تعمیر کرا یا تھا ۔ جو مسجد  بڑے بڑے علما اور امرا کی سجدہ گاہ بنی۔  وہ مسجد 1857 کی بغاوت کے بعد اصطبل بنا دی گئی تھی اور یہاں گھوڑے اور ہاتھی باندھے جاتے تھے اور یہ صورت حال تقریباً 30 سالوں تک باقی رہی پھر وقت نے پلٹہ کھا یا اور یہ مسجد ایک بار پھر فر زندان اسلام کے سجدوں سے روشن ہوگئی اور آج تک روشن ہے۔

چودہویں صدی کی مشہور فیروز شاہی جامع مسجد کوٹلہ برسوں نمازیوں سے خالی پڑی رہی۔ لیکن یہاں بھی وقت نے پلٹا کھا یا اور آزادی کے بعد غالباً وی پی سنگھ کے دورمیں اس مسجد کو نمازیوں کے لئے کھول دیا گیا۔ یہاں جمعہ اورعیدین کی نمازیں ہورہی ہیں۔ اور ساتھ ہی ظہر عصر اور مغرب کی نمازیں بھی یہاں ہوتی ہیں البتہ اب حکومت نے یہاں نماز پڑھنے پر پانچ روپے کا ٹکٹ لگا دیا ہے لیکن فرزندان توحید یہ قیمت بھی اللہ کی خوشنودی کے لئے چکا رہے ہیں۔

مسلمانوں کو مساجد کے معاملہ میں فراست ایمانی سے کام لینا چاہئے۔ انھیں اس معاملہ میں قبائلی جاہلیت سے بالکل دور رہنا چاہئے۔ ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ مسجد ہمارے لئے عبادت کی جگہ ہے وہ ہمارے لئے جائے فخر نہیں ۔ مسجد کے معاملہ میں ہمارا کام نصف ہے اور نصف کام اللہ کا ہے۔ اگرکہیں کوئی شخص یا کمیونٹی مسجد کی تعمیر کو روک دے تو یہ سمجھنا چاہئے کہ شاید مسجد کی تعمیر کے بارے میں ابھی اللہ کا حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ کیونکہ جب اس کا فیصلہ آجائے گا تو کوئی اس کے فیصلہ کو بدلنے والا نہیں۔ 

جمعرات، 15 جون، 2017

بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے

محمد آصف ریاض
محی الدین العربی عرب کا ایک نامورشاعرہے۔ وہ اہل علم کے درمیان العربی کے نام سے جاناجا تا ہے۔ اس کا ایک شعرہے۔ العبدعبد وان ترقی، والرب رب وان تتنزل: بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے۔
قرآن میں اللہ پاک کی صفات کا ذکران الفاظ میں ہوا ہے: لیس کمثلہ شئی؛ یعنی اللہ کےمثل کوئی شئے نہیں۔ ( سورہ الشوریٰ 11 )
ایک مشہورحدیث کے الفاظ اس طرح ہیں:  وکلکم فقیرالا من اغنیت فسئلونی اررزقکم:
یعنی اے میرے بندو،" تم سب محتاج ہومگروہ جس کومیں عطا کروں، اس لئے تم مجھ سے مانگو میں تمہیں رزق عطا کروں گا۔"
یہ محتاجی اضافی معنی میں نہیں بلکہ حقیقی اور حتمی معنیٰ میں ہے۔ مثلاً انسان آکسیجن پرزندہ رہتا ہےاورآکسیجن کے لئے اسے پوری طرح خدا ئی نظام پرانحصارکرنا پڑتا ہے۔
آکسیجن درختوں سے حاصل ہوتا ہے اوردرختوں کی پیدا وارکے لئے پانی، روشنی اورہیٹ ضروری ہے۔ تو خدا نےسورج کا انتظام کیا۔ آسمان سے پانی برسایا۔ زمین نے اس پانی کواپنی گود میں سمیٹ لیا، پھرسورج نے اس پرروشنی برسا یا اس طرح زمین پرنباتات اگ آئے اورہم انھی نباتات سے آکسیجن حاصل کرتے ہیں۔
خدا اگراپنے اس اعلیٰ نظام کوچند منٹ کے لئے روک لے توانسان اسی طرح گھٹ گھٹ کردم توڑ دے گا جس طرح مچھلیاں پانی سے باہر تڑپ تڑپ کرجان دے دیتی ہیں۔ مچھلیاں پانی سے باہرکیوں مرجاتی ہیں؟ کیونکہ انھیں تحلیل شدہ آکسیجن چاہئےاوروہ صرف پانی میں ہی مل سکتا ہے۔ پانی کے باہران کے لئے آکسیجن نہیں اس لئے وہ مر جاتی ہیں۔
اسی طرح دیکھنے کا عمل ہے۔ انسان کے پاس دیکھنے کے لئے آنکھیں ہیں لیکن کیا وہ صرف اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے؟ نہیں۔ اگرچیزوں میں روشنی کوجذب کرنے کی صلاحیت نہ ہوتوچیزیں اتنی زیادہ  ڈارک  ہوجائیں گی کہ آدمی آنکھ رکھنے کے  با وجود کچھ دیکھ نہیں سکتا ۔ خدانے سورج کو بنا یا آدمی اس روشنی میں چیزوں کودیکھتا ہے۔ لیکن وہ صرف انھیں چیزوں کودیکھ سکتا ہےجوچیزیں اپنےاندرسورج کی روشنی کوجذب کررہی ہیں جوچیزیں روشنی کوجذب نہیں کرتیں انسان انھیں دیکھ بھی نہیں سکتا۔
اب ایک مثال الو کی لیجئے۔ الو دن میں نہیں دیکھ پاتا کیوں کہ اس کی آنکھیں ایسی جگہ واقع ہوئی ہیں کہ جب وہ اپنی آنکھیں کھولتا ہے تو سورج کی روشنی براہ راست ان پر پڑنے لگتی ہے جس کی وجہ سے اس کی آنکھیں چوندھیا جاتی ہیں اور وہ کچھ بھی دیکھ نہیں پا تا۔ ذرا سوچئے کہ اگر انسان کی آنکھوں کی بنا وٹ میں بھی اسی قسم کی ترمیم کردی جائے توکیا ہوگا ؟ وہ سورج کی روشنی سے بھا گے گا اور آنکھ رکھنے کے با وجود کچھ دیکھ نہیں سکے گا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان ایک ایسی دنیا میں ہے جہاں ہرچیزکے لئے وہ اپنے رب کا محتاج ہے۔ اس کا رب اگراسے نہ کھلائے تووہ کھا نہیں سکتا، وہ اگرنہ پلائے تو وہ پی نہیں سکتا۔ وہ نہ دکھائے توانسان دیکھ نہیں سکتا۔ یعنی انسان اورخدا کے درمیان جورشتہ ہے وہ 'مین' اور'سپر مین' کا نہیں ہے بلکہ بندہ اوررب کا ہے۔ ایک غنی ہے اور دوسرا محتاج ۔ ایک کچھ نہیں ہے اوردوسرا سب کچھ ۔ ایک پیدا کرنے والا ہے اور دوسرا وہ جسے پیدا کیا گیا۔ یہی وہ واقعہ ہے جسے العربی نے اپنے شعرمیں ان الفاظ میں سمجھا نے کی کوشش کی ہے:
"العبدعبد وان ترقی، والرب رب وان تتنزل: بندہ بندہ ہے چاہے وہ کتناہی اوپرچڑھے اوررب رب ہے گرچہ وہ نیچے اترے۔"
x

بدھ، 26 اکتوبر، 2016

Where everybody is fighting against everybody

Muhammad Asif Reyaz

 What was the situation when Muslims in the 13th century entered the world which is today called Europe? To understand the real situation in Europe I would recommend you to read a Russian commentator’s words. His words have been taken as reference by Professor Thomas Arnold in his famous book The Spread of Islam in The World. Read the comments:
 “Without the fear of the law an empire is like a steed without reins. Constantine and his ancestors allowed their grandees oppress the people, there was no more justice in their law courts, no more courage in their hearts,  the judges amassed treasures from the tears and blood of the innocent,  the Greek soldiers were proud only of the magnificent of their dresses. The citizens did not blush of being traitors; the soldiers were not ashamed to fly.”
“At length the Lord poured out his thunder on these unworthy rulers, and raised up Mohammad whose warriors delight in battle, and whose judges do not betray their trust.”
Spread of Islam in the world: page No 148 
This is the first part of the story, now read the second part of the story.
 Now that, European powers have entered the world which is called Muslim world from Syria to Iraq to Afghanistan, what is going on there? To know the real situation of Muslim world again read another Russian commentator, this time Russian Prime Minister Dmitry Medvedev.
 “It would be impossible to win such a war quickly, especially in the Arab world, where everybody is fighting against everybody." Russian Prime Minister clarified on Muslim world while talking to a local newspaper.
Surely history repeats itself. When Muslims were of a good character, they were getting the results accordingly. But when they became as corrupt as early Christains and Jews they got the same result as they had got. And in the words of Russian commentator:
“The Lord poured out his thunder on these unworthy rulers.” It reminds us that, “You reap what you sow.” And of course Muslims are no exception to this universal truth.

پیر، 24 اکتوبر، 2016

Two stories from Sicily to Sindh

Muhammad Asif Reyaz
Abu Rayhan Muhammad ibn Ahmad Al-Biruni , was a man of great knowledge. He was well versed in the Physics, Mathematics, and Astronomy he had also distinguished himself as a historian and chronologist. He was well versed in different languages like Arabic, Sanskrit, Persian, Greek, Hebrew and Syriac.
In 1017 he travelled to India to learn about Hindus and discussed with them questions of religion, science, literature and very basis of their civilization. He remained in India for 17 years studying and exploring these subjects. After learning everything about India he wrote the most famous book named Tarikh Al-Hind (History of India) , also known as Albiruni ‘s India.
Reading this book, you will come across many interesting stories. Here I am mentioning you two stories from the book that I find very interesting.
 The first story is related to Sicily presently with Italy. And the second is related to Sindh presently with Pakistan.
When Muslims at the time of Omayyad Caliphate won Sicily, they found an idol there. That Idol was very beautiful and shining. That was made of gold and diamond. When this Idol was brought to Caliph he saw it and said; this is of no use for me, send it to Sindh the Raja of  Sindh who is Hindu will buy this paying handsome amount of money and so happened. The Idol was brought to Raja of Sindh and he bought it paying very big amount of money.
The second story is about Sindh. When Muhammad al-qasim won Sindh and he entered Multan. He found the city thriving and economy there was very much flourishing.
He asked people the reason of the city’s prosperity. He was informed that this is because of Adyttya Devta. Where is this Devta? he asked. He was brought to Adyttya Mandir. He saw the Devta and said; let it be remain here, let it be preserved for it will ensure our economy going. 
This shows the pragmatic approach of earlier Muslim leaders. Their decisions were smart, efficient, and compassionate.
In comparison, today’s Muslim leaders lack this quality and hence don’t receive the same respect as their predecessors did.