علم اور مسلمان
مسلمانوں کا حال یہ ہے
کہ اگرانھیں جوتا خریدنا ہو تو وہ سب سے اچھا جوتا خریدیں گے۔ اگرانھیں کپڑا
خریدنا ہو تو وہ سب سے قیمتی کپڑا خریدیں گے۔ وہ لکژری میں دوسری قوموں کو پیچھے
چھوڑ دینا چاہتے ہیں۔ البتہ جب انھیں کتاب خریدنی ہو تو وہ اس معاملہ میں سب سے بڑے بخیل بن جائیں گے۔
مسلمان جب ایک زندہ قوم تھے تو ان کے یہاں ہرگھرمیں
ایک لائبریری ہواکرتی تھی۔ اب لائبریری کی جگہ ان کے گھروں میں بڑے بڑے ٹیلی ویژن ہوتے
ہیں، اب کسی گھرمیں کوئی لائبریری نہیں ہوتی ۔ ٹیلی ویژن توغیر مسلموں کے گھروں
میں بھی ہوتے ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ان کے یہاں لائبریریاں بھی ہوتی ہیں، تاہم
مسلمانوں کا معاملہ بالکل ہی الگ ہے، ان کے یہاں صرف ٹیلی ویژن ہوتے ہیں
لائبریریاں نہیں ہوتیں۔
مسلمان ہرچیزپرخرچ کریں
گے لیکن اگرپڑھائی پرخرچ کرنا ہو تو وہ سب سے بڑے بخیل بن جائیں گے۔ اگرآپ انھیں
پڑھائی پر خرچ کرنے کی ترغیب دیں توایسا معلوم ہوگا کہ گویا آپ گدھے کوتالاب کی
طرف کھینچ رہے ہیں۔
مسلمانوں کا حال دیکھ
کرمجھے اکثربیربل کا ایک واقعہ یاد آجا تا ہے۔
کہا جا تا ہے کہ ایک
مرتبہ کسی بات پر ناراض ہوکراکبر نے بیربل کو نوکری سے نکال دیا۔ بیربل نئی نوکری
کی تلاش میں ایک نواب کے پاس پہنچا اوراس سے نوکری کی درخواست کی۔ بیربل سے مل کرنواب
بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا کہ مسٹر بیربل آپ تو بہت پڑے لکھے انسان ہیں تو ایسا کیوں
نہیں کرتے کہ آپ میرے بچوں کو پڑھا دیں! بیربل نے کہا کہ مجھے کوئی قباحت نہیں ہے۔
میں آپ کے بچوں کو پڑھانے کے لئے تیار ہوں البتہ یہ تو بتائیں کہ آپ مجھے کیا دیں
گے ؟ 20 درہم، نواب نے جواب دیا ۔ بیربل
نے پوچھا کہ جناب یہ تو بتایئے کہ آپ اپنے کوچوان کو کتنا دیتے ہیں؟ اس نے کہا کہ
100 درہم ۔ بیربل نے جواب دیا کہ پھرآپ اپنے بچوں کو کوچوان بنا لیجئے انھیں پڑھا
کیوں رہے ہیں؟
مسلمانوں کا حال یہی ہے۔
مسلمان اپنے بچوں کو کوچوان بنا رہے ہیں اور ہنگامہ کرتے ہیں کہ سماج میں انھیں
برابری کا مقام حاصل نہیں ہے۔ انھیں حاشیہ پر ڈالنے کی سازش کی جا رہی ہے، انھیں
پست کردیا گیا ہے، وہ دلتوں سے پیچھے ڈھکیل دئے گئے ہیں ، وغیرہ۔
علم پرخرچ کرنا درحقیقت
ایک علامتی خرچ ہے۔ انسان بڑی محنت و مشقت سے کماتا ہے وہ اپنے جسم کا ایک ایک
قطرہ خون نچوڑ کرکچھ پیسے جمع کرتا ہے، پھر ان پیسوں کو علم کی طلب پر لگا تا ہے
تو گویا وہ اس بات کا ظاہرہ ہوتا ہے کہ
آدمی علم کے معاملہ میں حساس ہے۔ علم کے حصول پرخرچ کرنا گویا ایک علامتی قربانی
ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ مسلمان اس علامتی قربانی کے لئے بھی تیارنہیں ہیں۔ افسوس ہے
اس قوم پرجسے بتا یا گیا ہے کہ اس کی نجات علم میں ہے پھر بھی وہ علم سے گریزاں
ہے، وہ ہر چیز کی طلب میں لیکن علم کے معاملہ میں وہ اندھا بہرا بنا ہوا ہے۔
حدیث میں ہے: من يريد الدنيا فعليه بالعلم
ومن يريد الاخره فعليه بالعلم ومن يريدهما معا فعليه بالعلم
"جوکوئی
دنیا کا طالب ہو تو چاہئے کہ وہ علم حاصل کرے ، جو کوئی آخرت کا طالب ہوتو چاہئے
کہ وہ علم حاصل کرے اورجو دنیا اور آخرت دونوں کا طلبگار ہو تو اسے چاہئے کہ علم
حاصل کرے۔"