مصیبت کے پیٹ میں کشمیری مسلمان
محمد آصف ریاض
اکتوبرکے مہینے میں جموں کشمیرمیں تباہ کن سیلاب آیا۔ اس
سیلاب کی زد میں آکرسینکڑوں لوگ مارے گئے اورکروڑوں کا مالی نقصان ہوا۔ لاکھوں
کشمیری ادھرسے ادھر ہوگئے۔ خبروں کے مطابق کئی لاکھ لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔
تمام مبصرین نے اپنے اپنے انداز میں اس سانحہ پر تبصرہ کیا ۔
کسی نے اسے مین میڈ پروبلم بتایا، کسی نے اسے ماحولیات سے کھلواڑکا نتیجہ قرار دیا ۔ کسی نے اسے خدائی عذاب بتا یا وغیرہ۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیلاب کشمیریوں کے جمود کو توڑنے کے
لئے آیا تھا۔ اس سیلاب سے خدا کا منشا یہ تھا کہ کشمیری اپنی کنڈیشنگ کو توڑیں ۔
وہ مفروضہ کشمیری چادرکواتار پھینکیں۔ وہ یہ جانیں کہ خدا نے انھیں کشمیرت کی بقا
کے لئے نہیں بھیجا ہے بلکہ وہ دین کی بقا کے لئے وارد کئے گئے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ایک طویل عرصہ سے کشمیری ماحول میں رہ
کرکشمیریوں کا ذہن بھی کشمیری بن گیا ہے۔ کشمیریت کی بھول بھلیوں میں پڑکرانھوں نے
وہ اصلی پیغام بھی بھلا دیا جس کا خدانےانھیں امین بنا یا تھا۔ کشمیریوں کی
کنڈیشنگ کا عالم یہ ہے کہ وہ کشمیرسے باہرنکلنے کے لئے بھی تیارنہیں ہوتے، وہ یہ
بھول جاتے ہیں کہ خدا نے انھیں دین کا پیغامبربنا کربھیجا ہے ناکہ کشمیریت کا
پیغامبر۔
کشمیریوں کی ناکامی
پنجاب اورہماچل پردیش کی سرحدیں جموں کشمیرسے جڑی ہوئی ہیں
لیکن کشمیری اپنے پڑوسیوں کو بھی خدائی پیغام پہنچانے میں ناکام ہیں۔ حالانکہ وہ چاہتے تواپنے پڑوسیوں تک بہ
آسانی دین کا پیغام پہنچا سکتے تھےاس کے لئے انھیں زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی اورنہ ہی زبان کا
کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہوتا بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ آج سے 20 سال قبل تک بلکہ آج بھی
بہت سے سکھ اور پنجابی اردو پڑھتے اور بولتے ہیں۔
آج سے تقریباً پندرہ سال قبل بنارس میں ایک سکھ سے میری ملاقات ہوئی ۔ وہ مجھ سے اردو اخبار
مانگ کر پڑھنے لگا تومیں حیران رہ گیا ۔ اس نےبتا یا کہ ہمارے گھر میں اردو پڑھی جاتی ہے اور زیادہ
تر لوگ اردو جانتے ہیں۔ کشمیری مسلمان اس ہم آہنگی کا فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ وہ
اپنے بھائیوں کو دین کا پیغام پہنچا سکتے تھے لیکن وہ ایسا نہ کر سکے اور پورے
معاملہ میں انڈیفرنٹ بنے رہے۔ چونکہ ان کا مائنڈ دعوہ اورینٹیڈ نہ تھا، اس لئے انھوں نے خدا کی
طرف سے پیدا کئے گئے مواقع کو کوئی اہمیت نہیں دی۔
1984کے واقعہ کے بعد سکھوں کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں سیکنڈ
تھاٹ پیدا ہوا تھا۔ سکھ مخالف فساد کے بعد سکھ اپنے آپ کو فطری طور پرمسلمانوں سے
قریب محسوس کرنے لگے تھے۔ ایسا اس لئے ہوا تھا کیونکہ فساد کے دوران مسلمانوں نے
سینکڑوں سکھوں کو فسادیوں کے ہاتھوں سے بچا یا تھا۔ لیکن مسلمان اس موقع پربھی
انھیں دین کا پیغام پہنچانے میں ناکام رہے۔
خدائی پیغام کے تئیں کشمیریوں کی مسلسل ناکامی کی وجہ سے خدا
کا غضب بھڑک اٹھا۔ اس نے کشمیریوں کو بھی اسی طرح مصیبت کے پیٹ میں بند کردیا جس
طرح خدائی مشن میں ناکامی کی وجہ سے حضرت
یونس کو مچھلی کے پیٹ میں بند کر دیا گیا تھا۔
حضرت یونس کا واقعہ قرآن میں اس طرح بیان ہوا ہے :
وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ
أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ ۔۔ ﴿ الانبیاء
۔87﴾
(اور
مچھلی والے کو بھی ہم نے نوازا، یاد کرو جبکہ وہ بگڑ کر چلا گیا تھا اورسمجھا تھا کہ
ہم اس پر گرفت نہ کریں گے)
مچھلی کے پیٹ میں حضرت یونس کو خدا
کا عہد یاد آیا اورآپ نے نہایت گریہ و زاری سے اپنے خدا کو پکار اور توبہ استغفار
کیا تو خدا نے آپ کو مچھلی کے پیٹ سے باہرنکال دیا ۔ قرآن میں اس کا ذکر ان الفاظ
میں ہوا ہے:
فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا
أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿ الانبیاء ۔87﴾
(آخر کو اُس نے تاریکیوں میں پکارا “نہیں ہے کوئی
خدا مگر تُو، پاک ہے تیری ذات، بے شک میں نے قصور کیا )
حضرت یونس کی اس پکار پرخدا نے انھیں معاف کردیا اور انھیں
مچھلی کے پیٹ سے آزاد کردیا۔ قرآن میں ہے:
فَنَبَذْنَاهُ بِالْعَرَاءِ وَهُوَ سَقِيمٌ﴿145﴾
وَأَنبَتْنَا عَلَيْهِ شَجَرَةً مِّن يَقْطِينٍ ﴿146﴾
آخرکارہم نے اسے بڑی سقیم حالت میں ایک چٹیل زمین
پر پھینک دیااور اُس پر ایک بیل دار درخت اگا دیا۔ (الصافات)
کشمیریوں کے لئے سبق
ایک کشمیری سے دہلی کے شاہین باغ میں میری ملاقات ہوئی۔ ان
کی عمر تقریباً ساٹھ سال تھی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کشمیری بم اورگن کلچر کیوں
نہیں چھوڑ دیتے تو انھوں نے جواب دیا کہ وہ اس کلچرمیں اس طرح رم گئے ہیں کہ اب ان
کے لئے کوئی ٹرنگ پوائنٹ نہیں ہے۔
میں حیران رہ گیا ! ایک ساٹھ سال کا آدمی جوکہ مسلمان بھی
تھا اورقتل وخون کے معاملہ میں نو ٹرنگ پوائنٹ کی بات کر رہا تھا میں نے انھیں بتا
کہ خدا نے آپ کو ہمیشہ کے لئے ٹرنگ پوائنٹ دیا ہے۔ خدا نے توبہ کا دروازہ ہمیشہ
کھول رکھا ہے، وہ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا۔ اسلام میں تو کوئی ایسا مقام ہی نہیں
جہاں سے نو ٹرنگ پوائنٹ کا مفروضہ ثابت ہو۔ میں نے انھیں بتا یا کہ آپ (کشمیریوں) کا
معاملہ حضرت یونس کا معاملہ ہے۔ حضرت یونس اپنی ذمہ داریوں سے غفلت کی وجہ سے "مچھلی
کے پیٹ" میں ڈالے گئے تھے اور خدا نے آپ کشمیریوں کو اسی جرم کے سبب "مصیبت
کے پیٹ" میں ڈال دیا ہے۔
اب آپ کی نجات کی صورت بھی وہی ہے جو حضرت یونس کی تھی یعنی
اپنے گناہوں پرسچی ندامت اور توبہ اور خدائی مشن کو دوبارہ لے کر اٹھنا اگر آپ
ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ضرور اہل کشمیرمصیبت کے پیٹ سے نکل جائیں گے۔