ایک قرآنی نصیحت
محمد آصف ریاض
قرآن میں جہنمیوں
کے بارے میں چار اہم باتیں بتائی گئی ہیں۔ قرآن میں بتا یا گیا ہے کہ جب جہنمیوں سے
پوچھا جائے گا کہ تمہیں کیاچیز یہاں لے آئی، تو وہ چاراسباب بیان کریں گے :
”ہم لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے
ہم لوگ مسکینوں
کو کھانا نہیں کھلاتے تھے
ہم لوگ بحث
لڑانے والوں کے ساتھ بحث لڑاتے تھے
اور ہم لوگ
فیصلہ کے دن کو جھٹلاتے تھے"
{سورہ
المدثر آیت43-46
:}
پہلاسبب "ہم
لوگ نماز نہیں پڑھتے تھے" نماز نہ پڑھنا کوئی سادہ جرم نہیں ہے۔ یہ بہت بھاری
جرم ہے۔ نماز نہ پڑھنا گویاکہ خداوند کے تخلیقی منصوبہ کو واضح طور پر مسترد کردینا
ہے۔ خداند کاجو منصوبہ اس کائنات میں کام کررہا ہے اس کے مطابق کائنات کی ہرچیزخداوند
کے سامنےسجدہ میں ہے۔ اس بات کااعلان قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:
”رحمن نے قرآن کی تعلیم دی۔ اس نے انسان کی تخلیق
کی اور اسے بولنا سکھایا۔ سورج اور چاند ایک حساب کے پابند ہیں اور تارے اور درخت سجدہ
کرتے ہیں“
) الرحمن آیت 6-{1
پوری کائنات میں خدا وند کاجو قانون نافذ ہے اس کے مطابق کائنات کی ہرچیزخداوند
کےسامنے سجدہ ریزہے۔ اب اگر انسان خدا وند کو سجدہ کرنے سے انکار کردے توگویا اس نے
فطرت میں قائم خدائی قانون کوچیلنج کرنے کا جرم کیا ۔ اس نے گویا کہ خدا وندسے بغاوت
کا اعلان کیا اورخدا کے ہرباغی کے لئے جہنم کاعذاب ہے۔
دوسرا سبب: "ہم لوگ مسکینوں کوکھانا نہیں کھلاتے تھے" مسکینوں کو کھانانہ کھلانا گویا
ان سے ان کے جینے کاحق چھین لینا ہے۔ خداوند نے انسان کی تخلیق کی اوراس کے کھانے پینے
کا سارا سامان زمین پررکھ دیا۔خدا وند کا منصوبہ یہ تھا کہ انسان زمین پرخدائی دسترخوان
سے ضرورت کے مطابق اپنا حصہ اٹھائے۔ لیکن زمین پر کچھ لوگ زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں، وہ
زمین پر خدائی دستر خوان سے اپنے حصہ کے علاوہ دوسروں کا بھی حصہ اٹھالیتے ہیں اور
کچھ لوگ کم ہوشیار ہوتے ہیں،وہ خدائی دستر خوان سے اپنا حصہ بھی نہیں اٹھا پاتے ۔ اب
زیادہ اٹھانے والوں پر لازم ہے کہ وہ ان لوگوں کو کھلائیں جو خدائی دسترخوان سے اپنا
حصہ نہ پاسکے۔ اگر کوئی شخص ایسا نہیں کرتا تو گویا کہ اس نے زمین پر لوٹ مارکی اور
لٹیروں کے لئے جہنم کا عذاب ہے۔
تیسرا سبب
:” بحث لڑانے والوں کے ساتھ بحث لڑاتے تھے“
خدا وندنے
اس دنیا کی تخلیق امن کے نقشہ پرکی ۔ کائنات میں ہرطرف امن کا نظام ہے۔ مثلاً درخت
ایک دوسرے سے انٹریکٹ کرتے ہیں لیکن یہ کسی کے لئے مسئلہ پیدا نہیں کرتے۔ ان کا انٹریکشن
سادہ اور خاموش ہوتا ہے۔ اسی طرح فضاﺅں میں پرندے تیرتے پھرتے ہیں، وہ ایک دوسرے سے
انٹریکشن کرتے ہیں لیکن ان کا انٹریکشن کسی کے لئے مسئلہ پیدانہیں کرتا۔سورج چاند کے
لئےمسئلہ پیدا نہیں کرتا اور نہ ہی چاند سورج کے لئے کوئی مسئلہ پیدا کرتا ہے۔ پوری
کائنات میں امن کانظام قائم ہے۔ خدا وند اسی نظام کو انسان کے لئے بھی دیکھنا چاہتا
ہے۔ انسان سے مطلوب ہے کہ وہ بغیرشورشرابہ اور ہنگامہ کے اپنی زندگی کاسفرطے کرے۔ اس
کی بات چیت پرامن ہو۔ وہ سلامتی کاعلمبردار بنے۔ وہ پر امن انداز میں ربانی پیغام سے
لوگوں کو واقف کرائے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی خدا کا بندہ خدائی پیغام لے
کراٹھتا ہے توکچھ لوگ اس کی مخالفت میں کھڑے ہوجاتے ہیں اورماحول میں کشیدگی پیدا کرنے
کے لئے " ہو ہلا " کرنے لگتے ہیں ۔ ایسے لوگ گویا کہ خدا وندکے پر امن نظام
کو ڈسٹرب کرنے کا جرم کررہے ہیں۔ اورایسے مجرمین کے لئےخدا وند کے یہاں جہنم کا عذاب
ہے۔
چوتھا سبب
: "فیصلہ کے دن کو جھٹلاتے تھے"
فیصلہ کے دن
کو جھٹلانا گویا کہ زمین پر خدا کے قائم کئے ہوئے قانون کے ہرایک تارکوبکھیر دینا ہے۔
فیصلہ کے دن کوجھٹلانے کا مطلب ہے کہ انسان نے اپنی جواب دہی سے انکار کردیا۔ اس نے
اپنے آپ کو گویا ایک آزاد وجود کے طور پرلیا۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ وہ جو چاہے کرے
وہ کسی کے آگے جوابدہ نہیں ہے۔ فیصلہ کے دن کو جھٹلانے کے بعد انسان نفس کا آلہ کار بن جاتا ہے۔ اور نفس کی پکار پرچلنے والوں
کے لئے خدا وند کے یہاں جہنم کا عذاب ہے۔